Faizul Amin Faiz

فیض الامین فیض

فیض الامین فیض کی غزل

    باقی ہے امید ذرا سی

    باقی ہے امید ذرا سی اے پردہ ور دید ذرا سی جن میں ذہانت تھی وہ کرتے کیوں اندھی تقلید ذرا سی میں بیمار دل بچ جاتا کر دیتے تاکید ذرا سی اور بھی تازہ دم کرتی ہے فن کو مرے تنقید ذرا سی دنیا بھر کے کفر پہ تنہا حاوی ہے توحید ذرا سی دل کی سنوں گا لیکن پہلے عقل کرے تائید ذرا سی فیضؔ جو ...

    مزید پڑھیے

    مالی کو سازشوں پہ یوں اکسا دیا گیا

    مالی کو سازشوں پہ یوں اکسا دیا گیا کلیاں بنیں نہ پھول یہ سمجھا دیا گیا سچ بولنے کی جس نے جسارت کی دوستو پھانسی پہ ایک دن اسے لٹکا دیا گیا منزل مرے نصیب میں لکھ دی گئی مگر پر پیچ راستہ مجھے دکھلا دیا گیا خود کو سمجھ رہے ہیں وہی لوگ ہوشیار جن کو خرد کی راہ سے بھٹکا دیا گیا پھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2