کسی آسیب کا سایہ ہے اس پر لوگ کہتے ہیں

کسی آسیب کا سایہ ہے اس پر لوگ کہتے ہیں
پڑا رہتا ہے وہ حجرے کے اندر لوگ کہتے ہیں


مری بستی میں اک بڑھیا ہے جو سچ مچ کی ڈائن ہے
وہ کھا جاتی ہے بچوں کو پکڑ کر لوگ کہتے ہیں


ہر اک رشتہ یہاں قائم ہے بس مطلب پرستی پر
زمانے میں یہی رائج ہے کلچر لوگ کہتے ہیں


معزز شخصیت ہے شہر کا اب نامور غنڈہ
کہ بن بیٹھا ہے وہ پارٹی کا لیڈر لوگ کہتے ہیں


سبق لیتا ہے جو بھی خامیوں سے اپنے ماضی کی
وہی جاتا ہے مستقبل میں اوپر لوگ کہتے ہیں


تعلق ہے مرا بس دوستی کی حد تلک اس سے
غلط باتیں ہی لیکن کیوں برابر لوگ کہتے ہیں


شکستہ ناؤ لے کر فیضؔ نکلے ہو سمندر میں
تمہارا ڈوب جانا ہے مقدر لوگ کہتے ہیں