Faisal Hashmi

فیصل ہاشمی

فیصل ہاشمی کی نظم

    بہت کٹھن ہے سفر

    میں اپنے جسم سے باہر نکل کے دیکھوں گا یہ کائنات مجھے کس طرح کی لگتی ہے فریب ذات کا احساس گرچہ اچھا ہے بہت کٹھن ہے سفر آگہی کی منزل کا بھٹک رہا ہوں میں صدیوں سے ایسی دنیا میں جہاں پہ جسم سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے ہر ایک خواب کو رستہ بدلنا پڑتا ہے

    مزید پڑھیے

    جسم سے آگے کی منزل

    جسم کی آگ کہاں بجھتی ہے لوگ کس وقت محبت کا نشہ سونگھتے ہیں کتنے ٹکڑوں میں بکھرتے ہیں وہ اور پھر جوڑتے ہیں ایک اک کر کے بدن کے اعضا اور یہی کہتے ہیں خاک کے قرب کی بیتاب کشش ایک بے فیض سی سرگرمی ہے جسم سے آگے کی منزل نہیں دیکھی ہم نے

    مزید پڑھیے

    تخلیق

    رات کی راہ سے ہٹ کر کسی غم خانے سے چاند چپکے سے نکل آیا تھا کتنی کلیاں تھیں جو ذہنوں میں مہکتی دیکھیں برف کے ایک پگھلتے ہوئے سناٹے میں کتنی صدیاں تھیں جو خاموش گزرتے دیکھیں اپنی ہی آگ میں جلتے ہوئے پیڑوں پر اگر اس گھڑی بور جو اترا تو جنم ہوگا ضرور ایسی نظموں کا جو مہکار میں ڈوبی ...

    مزید پڑھیے

    رائیگانی

    ترے نشان کو چنتا ہوا میں گلیوں میں نکل گیا ہوں بہت دور ایسے رستوں پر جہاں پہ خود کو بھی چاہوں تو ڈھونڈ سکتا نہیں سفر حیات کا لگتا ہے رائیگاں ہی گیا

    مزید پڑھیے

    روز اس آس پہ

    روز اس آس پہ دروازہ کھلا رکھتا ہوں شاید آ جائے وہ چپکے سے کبھی اس جانب وہ جو دنیا سے بہت دوری پر آگ کے خوف سے سہمے ہوئے اک لمحے میں چھپ کے بچے کی طرح بیٹھا ہے منتظر ہوں کہ کوئی اس کو سہارا دے دے جسے وہ تھام کے ظلمت کا سفر طے کر لے اور مل جائے وہ مجھ سے کہ مرے چہرے پر میری آنکھوں نے سجا ...

    مزید پڑھیے

    کیسی افتاد پڑی

    دیکھتے دیکھتے سب دھند میں تحلیل ہوئے دشت کہسار فلک آب نباتات سبھی بلڈنگیں چھوٹی بڑی دور تلک پھیلے گھر اکا دکا جو کہیں لوگ نظر آتے تھے وہ بھی مشغول تھے بے روح سی سرگرمی میں ہر کوئی نوحہ کناں تھا کہ پرانی صدیاں بوڑھی تہذیب کو دفنا کے ابھی لوٹی ہیں اور اب ڈھونڈھتی ہیں ان دیکھے ...

    مزید پڑھیے

    کئی لمحے

    تمہیں معلوم ہے جب بھی پرانے یار گلیوں کی یوں ہی بے سود باتوں میں کئی گھنٹوں کی بے مصرف نشست رائیگاں کو یاد کرتے ہیں تو کتنا لطف آتا ہے پرانے گھر میں گزرے پل اور ان میں سب کہی اور ان کہی باتوں کو جب دہرایا جاتا ہے تو کتنا لطف آتا ہے تمہیں معلوم ہے جب اس طرح کے ان گنت لمحے جنہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    آخری ملاقات

    دور تک پھیلے ہوئے ایک گھنے جنگل میں دو شجر کھینچ کے سایوں کو جہاں ملتے ہیں اس جگہ دھوپ بھی سورج سے ملا کرتی ہے اوڑھ کر شام کی پھولوں بھری چادر اکثر جیسے دو شخص بچھڑنے کے لئے ملتے ہیں

    مزید پڑھیے

    اندیشہ

    میں یہی سوچ کے کل رات نہیں سویا اگر نیند پھر آئی تو در خواب کا کھل جائے گا اور کتنے ہی عذابوں کا ستم بار ہجوم صف بہ صف بڑھتا ہوا میری طرف آئے گا

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2