روز اس آس پہ
روز اس آس پہ دروازہ کھلا رکھتا ہوں
شاید آ جائے وہ چپکے سے کبھی اس جانب
وہ جو دنیا سے بہت دوری پر
آگ کے خوف سے
سہمے ہوئے اک لمحے میں
چھپ کے بچے کی طرح بیٹھا ہے
منتظر ہوں کہ کوئی اس کو سہارا دے دے
جسے وہ تھام کے
ظلمت کا سفر طے کر لے
اور مل جائے وہ مجھ سے کہ مرے چہرے پر
میری آنکھوں نے سجا رکھا ہے امید کا باب