Faisal Hashmi

فیصل ہاشمی

فیصل ہاشمی کی نظم

    کوئی ذی روح نہ تھا

    کوئی ذی روح نہ تھا اطراف میں ویرانی تھی وقت بیمار تھا دم توڑ رہا تھا شاید شام کے موڑ پہ کچھ دھوپ پڑی تھی جس میں ایک بے شکل سے سائے کا لرزتا ہوا عکس رینگتے رینگتے اک لمبی صدا کے پیچھے ان گنت شمسی نظاموں کے جہاں سے نکلا آخر کار وہ اس کار گراں سے نکلا

    مزید پڑھیے

    پہچان

    کسی بھی موڑ پہ رک کر جو پیچھے دیکھا ہے تو ایک یاد ملی آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تو ایک رات ملی سوگوار سہمی ہوئی تو ایک خواب ملا در بدر بھٹکتا ہوا اور ایک جسم ملا جس کے سر کے بالوں میں گزرتے وقت نے لمحوں کی راکھ ڈالی ہے وہ جسم میرا نہیں ہے تو پھر وہ کس کا ہے

    مزید پڑھیے

    خاموشی کا شور

    بادلوں کے خون سے چپکی ہوئی اس شام میں اڑ رہے تھے کچھ پرندے لڑکھڑاتی آہٹوں کے کارواں کے ساتھ میں شہر گردی میں رہا گھر کا رستہ یاد آتا ہی نہ تھا کس قدر میں ڈر گیا تھا نیند کی خاموشیوں کے شور سے

    مزید پڑھیے

    ہم زاد

    جو چلتا ہے تو قدموں کی کوئی آہٹ نہیں ہوتی تلاش فرق نیک و بد کی خواہش کو لیے دل میں گزرتا ہے غبار زیست کی گم نام گلیوں سے دھندلکا سا کوئی ہے یا کوئی بے خواب سی شب ہے کوئی بے نور رستہ ہے کہ جس میں کھو گیا ہوں میں کوئی آواز ہے جو اک دریدہ پیرہن پہنے ہجوم بے سر و پا میں کئی صدیوں سے رہتی ...

    مزید پڑھیے

    مقفل چپ

    میں کہ گفتار کا ماہر تھا جہاں دیدہ تھا لوگ سنتے تھے مری اور سناتے بھی تھے اپنے دکھ درد میں ڈوبی ہوئی ساری باتیں مسئلہ کون سا ایسا تھا جسے حل نہ کیا آج بھی بھیڑ تھی لوگوں کی مرے چاروں طرف میں نے ہر ایک کو باتوں میں سکوں یاب کیا پھر کوئی دور سے دیتا ہے صدا کون ہو تم آئے ہو کون سی ...

    مزید پڑھیے

    خواب کے آخری حصے میں

    جسم بے جان ہے پتھر سی بنی ہیں آنکھیں اور اک خوف کا ملبوس پہن کر کوئی گھورتا رہتا ہے ہر وقت خلا میں شاید آئینہ خانوں کی مقہور نما چاہت میں عکس در عکس بکھرتی ہوئی پرچھائیاں ہیں اور سناٹوں کی گمبھیر صدا ہے ہر سو شاخ در شاخ خزاں نوحہ کناں ہے ہر سو ایسے ماحول میں جینا بھی ہے خواب کے ...

    مزید پڑھیے

    زمیں پر آخری لمحے

    اندھیرے دوڑتے ہیں رات کی ویران آنکھوں میں چراغوں کی جڑوں سے روشنی کا خون رستا ہے سمندر کشتیوں میں چھید کرتی مچھلیوں سے بھر گئے آخر مسافر منزلوں کی خواہشوں سے ڈر گئے آخر صدا اس قید گہہ سے بھاگ جانے کی کڑی کوشش میں زخمی ہے زمیں فالج زدہ ہونٹوں کی جنبش سے ٹھہر جانے کو شاید کہہ رہی ...

    مزید پڑھیے

    نشیب

    پہاڑوں میں گھری وادی کی بلکھاتی ہوئی سڑکیں گزرتے موڑ پر جھکتی ہوئی شاخوں سے پوچھیں گی پرانے ماڈلوں کی گاڑیوں نے کیا کہا تم سے مسافر خواہشوں کی منزلوں پر بھی پہنچتے ہیں کہ رستے کی کسی کھائی میں اپنے نام کی قبروں میں جا کر لیٹ جاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    امکان

    یہ ممکن ہے کہ میں تم کو نہ یاد آؤں مگر یہ بھی تو ممکن ہے اتر کر شب کی سیڑھی سے کوئی بے نام پرچھائیں ہٹا دے برف یادوں کی

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2