کوئی ذی روح نہ تھا
کوئی ذی روح نہ تھا اطراف میں ویرانی تھی وقت بیمار تھا دم توڑ رہا تھا شاید شام کے موڑ پہ کچھ دھوپ پڑی تھی جس میں ایک بے شکل سے سائے کا لرزتا ہوا عکس رینگتے رینگتے اک لمبی صدا کے پیچھے ان گنت شمسی نظاموں کے جہاں سے نکلا آخر کار وہ اس کار گراں سے نکلا