شکایت کس سے ہے کس بات کی ہے
شکایت کس سے ہے کس بات کی ہے کمی کوئی نہیں کیا یہ کمی ہے نظر انداز کر کے یہ ملا ہے کہ اب اس کو محبت ہو رہی ہے میں اک دریا کا پیاسا تھا مگر اب اسی دریا کو میری تشنگی ہے سفر میں نیند میں دفتر میں گھر میں کسی کی ہر جگہ موجودگی ہے مرا غم ڈھک لیا ہے قہقہوں نے اجالوں میں غضب کی تیرگی ...