سلگتا دشت یکایک بجھا نہیں کرتا
سلگتا دشت یکایک بجھا نہیں کرتا
یہ وقت ہجر ہے ایسے کٹا نہیں کرتا
ذرا سا فرق ہے شیشے میں اور اس دل میں
یہ ٹوٹتا تو ہے لیکن صدا نہیں کرتا
دلوں میں عشق کی کھیتی افیم جیسی ہے
کہ اس کے بعد یہاں کچھ اگا نہیں کرتا
کچھ ایک لوگ محبت سے خوف کھاتے ہیں
سبھی کو موسم باراں ہرا نہیں کرتا
پتا یہ ہجر سے اتنا تو چل گیا مجھ کو
کوئی کسی سے بچھڑ کر مرا نہیں کرتا
یہ زخم لازمی ہے حال کی گواہی کو
یہی میں سوچ کے ان کی دوا نہیں کرتا
کچھ ایک روز سے اک بیکلی سی رہتی ہے
کہیں وہ یاد تو مجھ کو کیا نہیں کرتا