نگاہوں کو نشانہ چاہئے تھا
نگاہوں کو نشانہ چاہئے تھا
کوئی پاگل دیوانہ چاہئے تھا
یہ مانا تھے خفا ہم پھر بھی لیکن
تمہیں نزدیک آنا چاہئے تھا
میں اپنے جبر پر حیران ہوں خود
مجھے تو ٹوٹ جانا چاہئے تھا
مجھے پا کر رواں سا ہو رہے ہو
تو کیا تم کو زمانہ چاہئے تھا
وہ قصہ یاد رکھنے کا نہیں ہے
سنا اور بھول جانا چاہئے تھا
جسے گر جاننا ہو درد کیا ہے
کسی سے دل لگانا چاہئے تھا
بھلانے کی یہی اک شرط بھی تھی
مجھے وہ یاد آنا چاہئے تھا
وہ جو آگاہ کرتا پھر رہا ہے
اسی کو آزمانا چاہئے تھا
ذرا سی بات اور ترک تعلق
تمہیں تو بس بہانہ چاہئے تھا