چند لمحات میں صدیوں کا مزہ لے آیا
چند لمحات میں صدیوں کا مزہ لے آیا
یا کہوں بیٹھے بٹھائے ہی بلا لے آیا
خود کو الجھا کے زمانے کے مسائل میں ادھر
میں تری یاد سے اپنے کو بچا لے آیا
آگ سے آگ تو لوہے سے کٹے گا لوہا
لو نیا زخم پرانے کی دوا لے آیا
ایک تقصیر کہ میں جس کی معافی کے لیے
ہر دفعہ ایک نئی اور سزا لے آیا
سرخ آنکھیں لیے وہ اپنی ادھر لوٹ گیا
میں ادھر اپنا رواںسا سا گلا لے آیا
تجھ کو پا کر بھی ندامت میں مرے جاتا ہوں
کہ کسی اور کے حصے کی وفا لے آیا