Dinesh Kumar Drouna

دنیش کمار درونا

دنیش کمار درونا کی غزل

    بڑا ہی تلخ لہجہ ہے زباں پر

    بڑا ہی تلخ لہجہ ہے زباں پر لئے ہو بوجھ کیسا جسم و جاں پر نشاں دیوار دل کا کہہ رہا ہے کوئی تصویر تھی پہلے یہاں پر جہاں وہ دکھ رہے ہوتے ہیں پھر تو کوئی دکھتا نہیں ہم کو وہاں پر مری قیمت مجھے بھی جاننی تھی سو میں نے رکھ دیا خود کو دکاں پر جہاں کا ہر مسافر راہبر ہو ترس آتا ہے ایسے ...

    مزید پڑھیے

    رواںسی شام ہے باقی ابھی تو رت جگے ہوں گے

    رواںسی شام ہے باقی ابھی تو رت جگے ہوں گے انہیں کھونے سے پہلے جانے کتنے وسوسے ہوں گے وہ کہتے تھے نہیں جی پائیں گے ہو کر جدا تم سے میں اکثر سوچتا ہوں کیا وہ سچ مچ مر گئے ہوں گے ہمارے ٹوٹنے میں آپ کا کچھ بھی نہیں مانا ہمیں شیشہ رہے ہوں گے ہمیں پتھر رہے ہوں گے میں ان کی یاد میں دن بھر ...

    مزید پڑھیے

    ایک برسات میں میدان سمندر ہوگا

    ایک برسات میں میدان سمندر ہوگا درد سوچا نہیں تھا سوچ سے بڑھ کر ہوگا وہ جو آئے گا مرے پاس مسیحا بن کر اس کے ہاتھوں میں مرے نام کا خنجر ہوگا تیز چلنے سے ہے مقصود روانی سن لو تھک کے جو بیٹھ گیا میل کا پتھر ہوگا لاکھ لیتے رہو ہاتھوں کی تلاشی میرے جو بھی اندر ہے مرے ذہن کے اندر ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کبھی ہی وہ مجھ سے نہیں جھگڑتا ہے

    کبھی کبھی ہی وہ مجھ سے نہیں جھگڑتا ہے وگرنہ دیکھتا ہے اور ٹوٹ پڑتا ہے مری نظر سے تو ہے دور وہ بہت لیکن مرے خیال کے ہاں آس پاس پڑتا ہے ہرا بھرا تو بہت تھا وہ بانس کا جنگل کسے پتا تھا مگر آگ بھی پکڑتا ہے یقین اس کی رفاقت کا کر رہا ہوں میں کہ جس کا کام میرے دشمنوں سے پڑتا ہے یہیں پہ ...

    مزید پڑھیے

    آئینے کے اس طرف سے اس طرف آتے ہوئے

    آئینے کے اس طرف سے اس طرف آتے ہوئے عمر گزری ہے خودی کو خود سے ملواتے ہوئے یوں سمجھ لیجے ہماری عشق میں بے چارگی ڈوب جانا تھا ہمیں تیراکیاں آتے ہوئے جانے اس شب کیا ہوا تھا میری عقل و ہوش کو خود بہکنے لگ گیا تھا اس کو سمجھاتے ہوئے بے سبب کچھ بھی نہیں تھا بے سبب تنقید بھی وہ مٹائے ...

    مزید پڑھیے

    یوں وحشت جنوں سے بچایا گیا مجھے

    یوں وحشت جنوں سے بچایا گیا مجھے خلوت سے دور بھیڑ میں لایا گیا مجھے چشمہ ہٹا کے شہر گھمایا گیا مجھے جو تھا نہیں وہ سب بھی دکھایا گیا مجھے میں تھا بزرگ پیڑ سا آنگن کے بیچ میں سو دیکھتا گیا جو دکھایا گیا مجھے اک حادثے میں جل کے مری موت ہو گئی میں جل چکا تھا پھر بھی جلایا گیا ...

    مزید پڑھیے

    سانس کا جھونکا بھی اب طوفان ہوتا جائے گا

    سانس کا جھونکا بھی اب طوفان ہوتا جائے گا ہر نفس تھوڑا بہت نقصان ہوتا جائے گا چاپ کانوں سے کسی کی دور جاتی جائے گی رفتہ رفتہ یہ بدن بے جان ہوتا جائے گا اجنبی لوگوں کی دل پر دھاک بڑھتی جائے گی اپنے ہی گھر میں کوئی مہمان ہوتا جائے گا پاسبانوں کے حوالے بستیاں ہوں گی اگر جاگنے کا ...

    مزید پڑھیے

    چند لمحات میں صدیوں کا مزہ لے آیا

    چند لمحات میں صدیوں کا مزہ لے آیا یا کہوں بیٹھے بٹھائے ہی بلا لے آیا خود کو الجھا کے زمانے کے مسائل میں ادھر میں تری یاد سے اپنے کو بچا لے آیا آگ سے آگ تو لوہے سے کٹے گا لوہا لو نیا زخم پرانے کی دوا لے آیا ایک تقصیر کہ میں جس کی معافی کے لئے ہر دفعہ ایک نئی اور سزا لے آیا سرخ ...

    مزید پڑھیے

    یہ ترک ربط تو فردا پہ ٹال رکھنا تھا

    یہ ترک ربط تو فردا پہ ٹال رکھنا تھا کسی بھی حال میں رشتہ بحال رکھنا تھا دلوں کی تلخیاں سڑکوں پہ کھینچ لایا تو پرانے ربط کا کچھ تو خیال رکھنا تھا یہ اس کی سوچ ہے اپنی وفا کرے نہ کرے تمہیں تو اپنا کلیجہ نکال رکھنا تھا یوں گفتگو کا کوئی سلسلہ بڑھانے کو ہمیں جواب میں پھر سے سوال ...

    مزید پڑھیے

    سفر کو پھر وہیں لے جا رہے ہیں

    سفر کو پھر وہیں لے جا رہے ہیں خطوط ان کے انہیں لوٹا رہے ہیں ہماری موت کے کیا فائدے ہیں ہم اپنے آپ کو سمجھا رہے ہیں کہاں کے راہبر کیسی مسافت ہمیں یہ لوگ بس ٹہلا رہے ہیں غزل شعر و سخن کچھ بھی نہیں بس ہم اپنے آپ سے بتلا رہے ہیں ذرا سی بات ہے کیسا تماشہ انہیں جانا تھا اور وہ جا رہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3