معصوم دل کی حسرتیں لفظوں میں ڈھال کر
معصوم دل کی حسرتیں لفظوں میں ڈھال کر
رکھے ہیں ہم نے دھوپ میں جگنو نکال کر
ہے شدت طلب کا مرے المیہ یہی
رکھ دے نہ میری پیاس سمندر ابال کر
چلتی نہیں محبتوں میں جلد بازیاں
ہوتے نہیں یہ فیصلے سکے اچھال کر
وعدوں کے جو کھلونے تھما کر گیا تھا تو
میں نے بھی رکھ دئے ہیں کہیں پر سنبھال کر
پھر یوں ہوا کہ سبز ہو اٹھا وہ ریگزار
نکلے جب ان کے ہاتھ میں ہم ہاتھ ڈال کر
تجھ سے جرح کروں گا مگر شرط ہے یہی
جس کا جواب تو ہو مجھے وہ سوال کر
اک نازنیں کا دل ہوا ہے گمشدہ کہیں
اور ہم کھڑے ہیں سامنے جیبیں نکال کر