Azhar Ghauri

اظہر غوری

اظہر غوری کی غزل

    اب اور دامن دل تار تار کیا کرتے

    اب اور دامن دل تار تار کیا کرتے الم نصیب امید بہار کیا کرتے سمجھ لیا تھا سر شام تم نہ آؤ گے تمام رات بھلا انتظار کیا کرتے سبک خرام تھے سب شاہراہ ریشم پر یہ موج خوں ملی جن کو وہ پار کیا کرتے تھی جب نصیب میں آوارگی بگولوں کے بکھر نہ جاتے جو مثل غبار کیا کرتے ہدف بناتے کسے کج کلاہ ...

    مزید پڑھیے

    لہو میں ڈوب کے نکلی حکایتیں چپ ہیں

    لہو میں ڈوب کے نکلی حکایتیں چپ ہیں معاملہ ہے ہمارا عدالتیں چپ ہیں یہی ہے وقت کا دستور آج کل شاید تمام شہر جلا اور شہادتیں چپ ہیں یہ کس کا غمزۂ خوں ریز ہے کہ محفل میں کسی میں دم نہیں سب کی جسارتیں چپ ہیں نہ ہوگا کچھ بھی تو حاصل سوا شماتت کے یہ سوچ سوچ کے اپنی جراحتیں چپ ہیں نہ ...

    مزید پڑھیے

    فضا میں آج ہے طاری فسردگی کتنی

    فضا میں آج ہے طاری فسردگی کتنی ہے دل گداز عنادل کی بے بسی کتنی چلو جلائیں ہر اک سمت آگہی کے چراغ یہی ہے وقت کہ ہر سو ہے تیرگی کتنی نہ آندھیوں کے تھپیڑے بجھا سکے اس کو چراغ راہ گزر میں تھی زندگی کتنی نظر لگے نہ کہیں اب ہوا سے لڑتا ہے مزاج یار میں ہے آج برہمی کتنی لپٹ لگی جو محل ...

    مزید پڑھیے

    غم کہیں سمت سفر تھی راہبر کوئی نہ تھا

    غم کہیں سمت سفر تھی راہبر کوئی نہ تھا ایک صحرائے الم تھا ہم سفر کوئی نہ تھا اس کو بھی ہم نے یہی سمجھا تماشا ہے کوئی جب کھلیں آنکھیں نشان سنگ در کوئی نہ تھا وقت ہم کو ٹھوکروں پر ٹھوکریں دیتا رہا اور اپنے ہاتھ میں تیر و تبر کوئی نہ تھا قریۂ بیداد خواہاں کی شکایت ہے عبث شہر ...

    مزید پڑھیے

    روشن نہ ہوئی تھی صبح ابھی منہ کھول رہی ہے شام کہیں

    روشن نہ ہوئی تھی صبح ابھی منہ کھول رہی ہے شام کہیں آغاز نہ ہونے پایا تھا اور ہونے لگا انجام کہیں اس دنیا میں کیا ملنا ہے بس ارمانوں کے خوں کے سوا اے خواب حسیں تیرے چلتے ہو جائیں نہ ہم بدنام کہیں مانند صبا آوارہ ہم پھرتے ہی رہے شہروں شہروں رمتا جوگی بہتا پانی ہے صبح کہیں تو شام ...

    مزید پڑھیے

    بچا لے دھوپ سے ایسا کوئی شجر نہ ملا

    بچا لے دھوپ سے ایسا کوئی شجر نہ ملا کہیں سراغ وفا قصہ مختصر نہ ملا مچل رہے تھے جبین نیاز میں سجدے یہ اور بات مقدر سے سنگ در نہ ملا کریدتے رہے سب دوست میرے زخموں کو سبھی نے طنز کیے کوئی چارہ گر نہ ملا وہ کربلا تو نہیں دوستوں کی بستی تھی تڑپتے رہ گئے پانی کو بوند بھر نہ ملا ہجوم ...

    مزید پڑھیے

    جانے کتنوں کے لیے رشک کا محور ٹھہرا

    جانے کتنوں کے لیے رشک کا محور ٹھہرا تیرا زخمی بھی تو قسمت کا سکندر ٹھہرا لذت درد کی بڑھتی ہی چلی آتی ہے طرب انگیز بہت ایک ہی نشتر ٹھہرا بھر گئیں ذہن میں رعنائیاں اک جلوے سے ہو کہیں جیسے کوئی پریوں کا لشکر ٹھہرا کیا شکست اس کو بھلا گردش دوراں دے گی خاک کا ڈھیر ہی جس کے لیے بستر ...

    مزید پڑھیے

    ہنس لیں یہ ستارے بھی ابھی رات کے اوپر

    ہنس لیں یہ ستارے بھی ابھی رات کے اوپر دن چڑھتے ہی آ جائیں گے اوقات کے اوپر بن جائے نہ ویرانئ دل اپنی تماشا ہم خول چڑھا لیتے ہیں اک ذات کے اوپر پہلے تو سمجھتے رہے ہر شے کو تماشا اب روکے بھی کیا کیجئے حالات کے اوپر دیکھا ہے اچھلتی ہوئی دستاروں کا منظر اک فتنۂ دوراں سے ملاقات کے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی کمی ضرور تھی تیرا کرم نہ مل سکا

    کوئی کمی ضرور تھی تیرا کرم نہ مل سکا چھوڑ دیا صنم کدہ پھر بھی حرم نہ مل سکا ہم کو بھی تھی یہ آرزو چلتے کسی کے ساتھ ساتھ لوگ تو کتنے ہی ملے جذب بہم نہ مل سکا یہ بھی ہے اپنی ہی خطا دل میں کوئی نہیں بچا شمع کوئی نہ جل سکی کوئی صنم نہ مل سکا وقت کے میر و شہریار درپئے جاں ہیں اس ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک سمت ہے اک جیت ہار کا موسم

    ہر ایک سمت ہے اک جیت ہار کا موسم اب ایک خواب سا لگتا ہے پیار کا موسم اسی کو گردش لیل و نہار کہتے ہیں کبھی خزاں ہے کبھی ہے بہار کا موسم چمن میں دھوم مچی ہے کہ فصل گل آئی یہی ہے دامن صد تار تار کا موسم اب اس کو یاد دلانے کا فائدہ ہی نہیں وہ بھول بھی چکا قول و قرار کا موسم ہر اک شکست ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2