اب اور دامن دل تار تار کیا کرتے

اب اور دامن دل تار تار کیا کرتے
الم نصیب امید بہار کیا کرتے


سمجھ لیا تھا سر شام تم نہ آؤ گے
تمام رات بھلا انتظار کیا کرتے


سبک خرام تھے سب شاہراہ ریشم پر
یہ موج خوں ملی جن کو وہ پار کیا کرتے


تھی جب نصیب میں آوارگی بگولوں کے
بکھر نہ جاتے جو مثل غبار کیا کرتے


ہدف بناتے کسے کج کلاہ پھر آخر
جنوں پسند نہ ہوتے تو دار کیا کرتے


وہ نکہت گل تر بن کے دل میں ٹھہرا تھا
تمام شہر کے زہرہ نگار کیا کرتے


یہ جانتے تھے کہ بجلی وہیں پہ گرنی ہے
تو اس سے رحم طلب بار بار کیا کرتے


در قبول ہی جس کو نہ یاد رہ پایا
اسے دعاؤں میں اپنی شمار کیا کرتے


جھپکنے پائیں نہ پلکیں تمام شب اظہرؔ
اب اور دیدۂ خو نابہ بار کیا کرتے