لہو میں ڈوب کے نکلی حکایتیں چپ ہیں

لہو میں ڈوب کے نکلی حکایتیں چپ ہیں
معاملہ ہے ہمارا عدالتیں چپ ہیں


یہی ہے وقت کا دستور آج کل شاید
تمام شہر جلا اور شہادتیں چپ ہیں


یہ کس کا غمزۂ خوں ریز ہے کہ محفل میں
کسی میں دم نہیں سب کی جسارتیں چپ ہیں


نہ ہوگا کچھ بھی تو حاصل سوا شماتت کے
یہ سوچ سوچ کے اپنی جراحتیں چپ ہیں


نہ چارہ گر ہے کوئی اب نہ غم گسار کوئی
تمام صدق و صفا کی روایتیں چپ ہیں


یہ بستیاں نہیں اب مخبروں کے مرکز ہیں
تو کیا عجب ہے عزیزو رفاقتیں چپ ہیں


کلائیوں کو مروڑے گا کون ظالم کی
کہ انقلاب ہے خفتہ بغاوتیں چپ ہیں


ہوا یہ کیا مرے یاران تیز گام کے ساتھ
عتاب مہر بہ لب ہے شرارتیں چپ ہیں


مرے سوا نہیں موضوع گفتگو اب بھی
یہ اور بات کہ اب وہ عنایتیں چپ ہیں


یہ کس گمان میں بیٹھے ہو تم میاں اظہرؔ
یہ دور وہ ہے کہ جس میں کرامتیں چپ ہیں