ہنس لیں یہ ستارے بھی ابھی رات کے اوپر
ہنس لیں یہ ستارے بھی ابھی رات کے اوپر
دن چڑھتے ہی آ جائیں گے اوقات کے اوپر
بن جائے نہ ویرانئ دل اپنی تماشا
ہم خول چڑھا لیتے ہیں اک ذات کے اوپر
پہلے تو سمجھتے رہے ہر شے کو تماشا
اب روکے بھی کیا کیجئے حالات کے اوپر
دیکھا ہے اچھلتی ہوئی دستاروں کا منظر
اک فتنۂ دوراں سے ملاقات کے اوپر
واعظ کبھی میدان عمل میں بھی قدم رکھ
اس سلسلۂ کشف و کرامات کے اوپر
عبرت تو کوئی لینے کو تیار نہیں ہے
ہاں جشن مناتے ہیں مزارات کے اوپر
اظہرؔ نہ تھی اس بات میں کچھ بھی تو حقیقت
اک حشر سا برپا ہوا جس بات کے اوپر