فضا میں آج ہے طاری فسردگی کتنی
فضا میں آج ہے طاری فسردگی کتنی
ہے دل گداز عنادل کی بے بسی کتنی
چلو جلائیں ہر اک سمت آگہی کے چراغ
یہی ہے وقت کہ ہر سو ہے تیرگی کتنی
نہ آندھیوں کے تھپیڑے بجھا سکے اس کو
چراغ راہ گزر میں تھی زندگی کتنی
نظر لگے نہ کہیں اب ہوا سے لڑتا ہے
مزاج یار میں ہے آج برہمی کتنی
لپٹ لگی جو محل میں اسے تو چیخ اٹھا
جلا کے شہر ہوئی تھی اسے خوشی کتنی
کہا نہ تھا کہ مصائب کا کاروبار نہ کر
مگر تھی تیری سیاست میں سرکشی کتنی
زمانے بھر کے اندھیرے شکست دے نہ سکے
اس اک چراغ میں اظہرؔ تھی روشنی کتنی