جانے کتنوں کے لیے رشک کا محور ٹھہرا

جانے کتنوں کے لیے رشک کا محور ٹھہرا
تیرا زخمی بھی تو قسمت کا سکندر ٹھہرا


لذت درد کی بڑھتی ہی چلی آتی ہے
طرب انگیز بہت ایک ہی نشتر ٹھہرا


بھر گئیں ذہن میں رعنائیاں اک جلوے سے
ہو کہیں جیسے کوئی پریوں کا لشکر ٹھہرا


کیا شکست اس کو بھلا گردش دوراں دے گی
خاک کا ڈھیر ہی جس کے لیے بستر ٹھہرا


میری مہمان نوازی کا تھا چرچا ایسا
جو بھی طوفان بلا آیا مرے گھر ٹھہرا


خستہ حالی سے جو بونا نظر آتا تھا تمہیں
وقت جب آیا تو پھر کتنا قد آور ٹھہرا


نذر جاں راہ محبت میں بہت آساں ہے
شرط میرے لیے کچھ مشکل و برتر ٹھہرا


گر امنڈ آئے تو غرقاب نہ ہو شہر تمام
یہ جو آنکھوں میں ہے اشکوں کا سمندر ٹھہرا


کیسے اظہرؔ کسی سورج کو سلامی دے گا
کیوں نہ ہو اپنے زمانے کا قلندر ٹھہرا