ہر ایک سمت ہے اک جیت ہار کا موسم
ہر ایک سمت ہے اک جیت ہار کا موسم
اب ایک خواب سا لگتا ہے پیار کا موسم
اسی کو گردش لیل و نہار کہتے ہیں
کبھی خزاں ہے کبھی ہے بہار کا موسم
چمن میں دھوم مچی ہے کہ فصل گل آئی
یہی ہے دامن صد تار تار کا موسم
اب اس کو یاد دلانے کا فائدہ ہی نہیں
وہ بھول بھی چکا قول و قرار کا موسم
ہر اک شکست پہ جوش عمل میں شدت لا
مٹے گا دیدۂ خونابہ بار کا موسم
نہ آنے دے کبھی پاۓ ثبات میں لغزش
سدا ملا ہے کسے اختیار کا موسم
رہائی ملتی ہے یارو نہ جان جاتی ہے
عذاب جان ہے یہ انتظار کا موسم
دراز کتنی ہی شب ہو گزر ہی جائے گی
پلٹ کے آئے گا دیدار یار کا موسم
جو لوح دل پہ لگانے چلے ہو داغ پہ داغ
کبھی تو آئے گا ان کے شمار کا موسم
ہے اب یہ حال عروس البلاد کا اظہرؔ
ٹھہر گیا ہے وہیں گیر و دار کا موسم