Azeez Moradabadi

عزیز مراد آبادی

عزیز مراد آبادی کی غزل

    جب کبھی شغل سے خالی یہ بشر ہوتا ہے

    جب کبھی شغل سے خالی یہ بشر ہوتا ہے تو دماغ اس کا شیاطین کا گھر ہوتا ہے قلب میں جس کے ہو ایمان و عمل کی طاقت وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا نڈر ہوتا ہے بے عمل کی تو دعائیں بھی پلٹ آتی ہیں با عمل کی ہی دعاؤں میں اثر ہوتا ہے ہر زمانے میں حسد کرتے ہیں اس سے کچھ لوگ جو بھی آراستۂ علم و ہنر ...

    مزید پڑھیے

    برق رفتار وہ یوں جان جہاں ملتے ہیں

    برق رفتار وہ یوں جان جہاں ملتے ہیں ہم جہاں ہوتے ہیں وہ ہم کو وہاں ملتے ہیں غم کے مارے تو ملا کرتے ہیں ہم کو اکثر آج کے دور میں غم خوار کہاں ملتے ہیں جو کہ ہوتے ہیں بہت مہر و محبت والے ایسے احباب زمانے میں کہاں ملتے ہیں خون دل کا جو کیا کرتے ہیں آناً‌ فاناً تیز نشتر بھی وہ قرب رگ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی پھولوں سے بہلایا گیا ہوں

    کبھی پھولوں سے بہلایا گیا ہوں کبھی کانٹوں میں الجھایا گیا ہوں تمنا ہے انہیں پر جان دے دوں کہ جن کے در سے اٹھوایا گیا ہوں مری قسمت میں بچنا تھا بچا میں گو ہر منزل پہ بہکایا گیا ہوں میں اک آزاد روح لا مکاں تھا یہاں کس واسطے لایا گیا ہوں مجھی پر کیوں ہے یہ الزام ہستی نہ میں سمجھا ...

    مزید پڑھیے

    مرے دل سے دل کو ملا کر تو دیکھو

    مرے دل سے دل کو ملا کر تو دیکھو محبت کی دنیا بسا کر تو دیکھو در آستاں پر کھڑا ہوں میں کب سے ذرا رخ سے پردہ ہٹا کر تو دیکھو ابھی تک تو مجھ سے رہے ہو خفا تم مگر اب ذرا مسکرا کر تو دیکھو بجھاؤ گے جتنے وہ بھڑکیں گے اتنے محبت کے شعلے بجھا کر تو دیکھو یہ باد مخالف نہ گل کر سکے گی چراغ ...

    مزید پڑھیے

    عشق نے تیرے نہ جانے کیا تماشا کر دیا

    عشق نے تیرے نہ جانے کیا تماشا کر دیا ایک قطرہ تھا میں لیکن مجھ کو دریا کر دیا جب جنوں میرا بڑھا تو اس نے ایسا کر دیا ان کو شرمندہ کیا اور مجھ کو رسوا کر دیا عشق میرا چھپ نہیں سکتا چھپانے سے مرے آنسوؤں نے خوب بہہ کر اس کو افشا کر دیا ایک جلوہ جو کبھی تو نے دکھایا تھا مجھے تیرے اس ...

    مزید پڑھیے

    نور ایماں کو بڑھاؤ تو کوئی بات بنے

    نور ایماں کو بڑھاؤ تو کوئی بات بنے اپنے باطن کو سجاؤ تو کوئی بات بنے علم کی شمع جلائی ہے بہت لوگوں نے ظلمت جہل مٹاؤ تو کوئی بات بنے حاسدوں کو کبھی خوش ہونے کا موقع نہ ملے ان کو تم خوب جلاؤ تو کوئی بات بنے سخت دشوار ہے یہ راہ محبت کا سفر اس پہ خود چل کے دکھاؤ تو کوئی بات بنے دل ...

    مزید پڑھیے

    دشواریٔ حیات کو آساں نہ کر سکے

    دشواریٔ حیات کو آساں نہ کر سکے ہم اپنے درد کا کوئی درماں نہ کر سکے توہین ہم نے اپنی گوارا نہ کی کبھی عزت کو اپنی حرص پہ قرباں نہ کر سکے ہم نے تو اپنے آپ کو خود ہی ڈبو دیا طوفاں ہمیں ڈبونے کا احساں نہ کر سکے عشق بتاں میں حال سے بے حال ہو گئے ہم پھر بھی کچھ نجات کا ساماں نہ کر ...

    مزید پڑھیے

    حسن پر جب شباب آتا ہے

    حسن پر جب شباب آتا ہے اک نیا انقلاب آتا ہے ان کو بھیجا ہے آج نامۂ شوق دیکھیے کیا جواب آتا ہے میری آنکھوں میں دیکھ کر آنسو ان کو مجھ پر عتاب آتا ہے بے نقاب ان کو دیکھنے کے لئے رات کو ماہتاب آتا ہے طالب دید درس الفت لیں امتحاں میں یہ باب آتا ہے آپ جو بھی سوال پوچھیں گے مجھ کو اس ...

    مزید پڑھیے

    کس کو سنائیں اور کہیں کیا کسی سے ہم

    کس کو سنائیں اور کہیں کیا کسی سے ہم سب کچھ لٹا کے بیٹھ گئے ہیں ابھی سے ہم اپنی ہی کچھ خبر ہے نہ دنیا سے واسطہ رہتے ہیں سب کے ساتھ مگر اجنبی سے ہم یوں تو چراغ ہم نے بہت سے جلائے تھے محروم پھر بھی رہتے رہے روشنی سے ہم اسرار حسن و عشق کو ظاہر بھی کیوں کریں کہنے کی بات ہو تو کہیں ہر ...

    مزید پڑھیے

    کیا دے گئی فریب کسی کی نظر مجھے

    کیا دے گئی فریب کسی کی نظر مجھے دنیا کا ہوش ہے نہ کچھ اپنی خبر مجھے جینے کی آرزو ہے نہ مرنے کی آرزو ایسا دیا ہے عشق نے اک درد سر مجھے موسیٰ گئے تھے طور پہ جلوے کو دیکھنے آتا ہے چار سو ترا جلوہ نظر مجھے جب تک شعور و عقل مرے ساتھ میں رہے لگتی تھی راہ عشق بہت پر خطر مجھے وہ ہم نشیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2