کس کو سنائیں اور کہیں کیا کسی سے ہم

کس کو سنائیں اور کہیں کیا کسی سے ہم
سب کچھ لٹا کے بیٹھ گئے ہیں ابھی سے ہم


اپنی ہی کچھ خبر ہے نہ دنیا سے واسطہ
رہتے ہیں سب کے ساتھ مگر اجنبی سے ہم


یوں تو چراغ ہم نے بہت سے جلائے تھے
محروم پھر بھی رہتے رہے روشنی سے ہم


اسرار حسن و عشق کو ظاہر بھی کیوں کریں
کہنے کی بات ہو تو کہیں ہر کسی سے ہم


ہر شعر اپنا آئنۂ حسن و عشق ہے
بس لطف لیتے رہتے ہیں اب شاعری سے ہم


پہلے زبان غیر میں کرتے تھے شاعری
اردو میں شعر کہتے ہیں اب آگہی سے ہم


دل اتنا بجھ گیا ہے غموں سے کہ اے عزیزؔ
جینے کو جی رہے ہیں مگر بے دلی سے ہم