کیا دے گئی فریب کسی کی نظر مجھے
کیا دے گئی فریب کسی کی نظر مجھے
دنیا کا ہوش ہے نہ کچھ اپنی خبر مجھے
جینے کی آرزو ہے نہ مرنے کی آرزو
ایسا دیا ہے عشق نے اک درد سر مجھے
موسیٰ گئے تھے طور پہ جلوے کو دیکھنے
آتا ہے چار سو ترا جلوہ نظر مجھے
جب تک شعور و عقل مرے ساتھ میں رہے
لگتی تھی راہ عشق بہت پر خطر مجھے
وہ ہم نشیں تھا میرا میں تھا اس کا ہم نشیں
اب کیوں خفا ہے وہ نہیں اس کی خبر مجھے
اللہ رے یہ حسن تصور کی وسعتیں
جس سمت میں نے دیکھا وہ آئے نظر مجھے
جانا ہے مجھ کو دور ابھی اور اے عزیزؔ
بالکل روا نہیں ہے کہیں بھی حذر مجھے