دشواریٔ حیات کو آساں نہ کر سکے

دشواریٔ حیات کو آساں نہ کر سکے
ہم اپنے درد کا کوئی درماں نہ کر سکے


توہین ہم نے اپنی گوارا نہ کی کبھی
عزت کو اپنی حرص پہ قرباں نہ کر سکے


ہم نے تو اپنے آپ کو خود ہی ڈبو دیا
طوفاں ہمیں ڈبونے کا احساں نہ کر سکے


عشق بتاں میں حال سے بے حال ہو گئے
ہم پھر بھی کچھ نجات کا ساماں نہ کر سکے


مرنے کے بعد قبر کا میری نشاں نہ ہو
کوئی رفیق اس پہ چراغاں نہ کر سکے


عاشق حقیقتاً وہی ہوتا ہے جس کا دل
تڑپے مگر وصال کا ارماں نہ کر سکے


بیکار کر دیا ہے ہمیں عشق نے عزیزؔ
دنیا میں کوئی کار نمایاں نہ کر سکے