عشق نے تیرے نہ جانے کیا تماشا کر دیا
عشق نے تیرے نہ جانے کیا تماشا کر دیا
ایک قطرہ تھا میں لیکن مجھ کو دریا کر دیا
جب جنوں میرا بڑھا تو اس نے ایسا کر دیا
ان کو شرمندہ کیا اور مجھ کو رسوا کر دیا
عشق میرا چھپ نہیں سکتا چھپانے سے مرے
آنسوؤں نے خوب بہہ کر اس کو افشا کر دیا
ایک جلوہ جو کبھی تو نے دکھایا تھا مجھے
تیرے اس جلوے ہی نے محو تماشا کر دیا
کونسی تھی وہ خطا جس کی مجھے دی یہ سزا
بزم سے تو نے اٹھا کر مجھ کو رسوا کر دیا
اب تلاش چارہ گر میں کیوں کروں اور کس لئے
درد نے اب تو مرا خود ہی مداوا کر دیا
کیا ضرورت ہے چھپانے کی مرے قاتل کو اب
خون نے اس کو زباں سے آشکارہ کر دیا
میں بہت ممنون احساں ہوں عزیزؔ اس عشق کا
جس نے میرے قلب کو حسن مجلیٰ کر دیا