کبھی پھولوں سے بہلایا گیا ہوں
کبھی پھولوں سے بہلایا گیا ہوں
کبھی کانٹوں میں الجھایا گیا ہوں
تمنا ہے انہیں پر جان دے دوں
کہ جن کے در سے اٹھوایا گیا ہوں
مری قسمت میں بچنا تھا بچا میں
گو ہر منزل پہ بہکایا گیا ہوں
میں اک آزاد روح لا مکاں تھا
یہاں کس واسطے لایا گیا ہوں
مجھی پر کیوں ہے یہ الزام ہستی
نہ میں سمجھا نہ سمجھایا گیا ہوں
میں روتا تھا بہ طرز طفل ناداں
بڑی مشکل سے بہلایا گیا ہوں
یہی شاید محبت کی سزا ہے
پکڑ کردار پر لایا گیا ہوں
عبادت کا مزہ لینے کی خاطر
بہت مرشد کے گھر آیا گیا ہوں
عزیزؔ ان کی عنایت کی بدولت
کہاں سے میں کہاں لایا گیا ہوں