اطہر شکیل کی غزل

    صبح بھی ہوتی رہی مہتاب بھی ڈھلتا رہا

    صبح بھی ہوتی رہی مہتاب بھی ڈھلتا رہا زندگی کا کارواں چلتا رہا چلتا رہا سانحہ کیا اس پہ گزرا کون اٹھ کر دیکھتا اہل خانہ سو گئے لیکن دیا جلتا رہا میرے خوابوں کی کوئی بنیاد بھی تھی کیا کہوں برف کا پربت تھا اک گلتا رہا گلتا رہا آخری وقت آ گیا تو سوچتا ہوں دوستو آج کا جو مسئلہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    نتیجہ تجسس کا بہتر بھی ہے

    نتیجہ تجسس کا بہتر بھی ہے مشقت کی تہ میں مقدر بھی ہے ندی پار کرنا ہی کافی نہیں ابھی راستے میں سمندر بھی ہے اگر گھر کو چھوڑیں تو جائیں کہاں قیامت تو کھڑکی سے باہر بھی ہے گلابوں کا دھوکا نہ کھائے کوئی عزیزوں کی جھولی میں پتھر بھی ہے نہیں نیند آنکھوں میں تجھ بن مری خنک رات ہے تن ...

    مزید پڑھیے

    جیسے ہی چشم رزاق سے گر گیا

    جیسے ہی چشم رزاق سے گر گیا جگمگاتا دیا طاق سے گر گیا ایک لغزش سے دونوں ہی رسوا ہوئے وہ نظر سے میں آفاق سے گر گیا شعر کہنے کو لکھا تھا میں نے ابھی ایک مضمون اوراق سے گر گیا اس کی نظروں سے میں کیا گرا ایک بار یوں لگا جیسے آفاق سے گر گیا ایک بیٹا تکبر کے آکاش سے باپ کے لفظ اک عاق سے ...

    مزید پڑھیے

    مطمئن ہو کے مرنے کا سامان کر

    مطمئن ہو کے مرنے کا سامان کر زندگی اے خدا مجھ پہ آسان کر صرف رسمی تعارف ہی کافی نہیں میرے نزدیک آ میری پہچان کر رسم ہے سجدہ ریزی تو کچھ بھی نہیں قلب کو پہلے اپنے مسلمان کر ابر کی اوٹ میں چاند کب کا چھپا اب نہ چہرے پہ زلفیں پریشان کر موت تو آئے گی بے طلب آئے گی زندگی ہے تو جینے ...

    مزید پڑھیے

    سر سبز یہ جنگل چاہت کا وہ دشت وفا ہے ویراں بھی

    سر سبز یہ جنگل چاہت کا وہ دشت وفا ہے ویراں بھی ہے دل کو سکوں بھی دیکھ کے یہ اور ذہن رسا ہے حیراں بھی یہ بھی ہے قرینہ اک شاید ہستی میں توازن رکھنے کا کچھ راز عیاں کر لوگوں پر کچھ حال مگر رکھ پنہاں بھی اک ضرب انا نے زیر و زبر کر ڈالا محبت کا محور اب اس سے پناہ رب چاہیں تھے جس پہ کبھی ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے میں تو لگتے ہیں انسان سے

    دیکھنے میں تو لگتے ہیں انسان سے بے خبر ہیں سب اپنی ہی پہچان سے ہے تجھے یاد کرنے کی خواہش بہت دل جو غافل کبھی ہو ترے دھیان سے دشمنی کا کوئی داؤ کاری نہیں جیت لیتے ہیں دشمن کو احسان سے دل میں شفقت ہو چاہت ہو اخلاص ہو گھر کا مطلب نہیں ساز و سامان سے یوں سر راہ ان سے تقابل ہوا جیسے ...

    مزید پڑھیے

    رت مری بستی کو اس درجہ بھی بارانی نہ دے

    رت مری بستی کو اس درجہ بھی بارانی نہ دے شہر دل کے سبزہ زاروں کو یہ ویرانی نہ دے مل نہیں پاتا کبھی پھولوں سے غنچوں سے مزاج یوں مہک بھی اپنی ان کو رات کی رانی نہ دے خود کلامی کرنی ہے خود سے ہی سرگوشی مجھے اب کوئی صورت مجھے جانی یا انجانی نہ دے سیم گوں خوابوں کو لے کر ہو نہ سر گرداں ...

    مزید پڑھیے

    وائے تقدیر کیا یہ المیہ نہیں

    وائے تقدیر کیا یہ المیہ نہیں سب ہیں اپنے مگر کوئی اپنا نہیں دیدہ و دل کہ سنسان صحرا ہوئے دل میں جذبہ تو آنکھوں میں سپنا نہیں عشق کو ترک کرنے میں دقت نہ تھی عشق کو مشغلہ ہم نے سمجھا نہیں اب کے مجھ سے ملا وہ تو ایسا لگا وہ ہی چہرہ ہے لیکن وہ چہرہ نہیں پھنک رہا ہے بدن کنج تنہائی ...

    مزید پڑھیے

    جب تمہارا ظالموں سے کوئی بھی رشتہ نہیں

    جب تمہارا ظالموں سے کوئی بھی رشتہ نہیں کس لیے تم نے شہا پھر ظلم کو روکا نہیں وقت کے بدلے ہوئے رخ نے پناہیں چھین لیں ہم پس دیوار بیٹھے ہیں مگر سایہ نہیں آسماں کچھ تو بتا یا امتحاں ہے یا سزا سلسلہ ظلم و ستم کا کس لیے رکتا نہیں سب نے کانٹوں ہی پہ چل کر پائی ہے منزل یہاں کامیابی کے ...

    مزید پڑھیے

    آ گئے ہو تو رہو ساتھ سحر ہونے تک

    آ گئے ہو تو رہو ساتھ سحر ہونے تک ہم بھی شاید ہیں یہی رات بسر ہونے تک نامہ بر سست قدم اس پہ یہ راہ دشوار زندہ رہنا ہے ہمیں ان کو خبر ہونے تک دم نہیں لیں گے کسی طور یہ کھاتے ہیں قسم ظلم کی آہنی دیوار میں در ہونے تک آسمانوں سے لڑی دل سے نکل کر اک آہ ایک پل چین سے بیٹھی نہ اثر ہونے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3