صبح بھی ہوتی رہی مہتاب بھی ڈھلتا رہا
صبح بھی ہوتی رہی مہتاب بھی ڈھلتا رہا
زندگی کا کارواں چلتا رہا چلتا رہا
سانحہ کیا اس پہ گزرا کون اٹھ کر دیکھتا
اہل خانہ سو گئے لیکن دیا جلتا رہا
میرے خوابوں کی کوئی بنیاد بھی تھی کیا کہوں
برف کا پربت تھا اک گلتا رہا گلتا رہا
آخری وقت آ گیا تو سوچتا ہوں دوستو
آج کا جو مسئلہ تھا کل پہ کیوں ٹلتا رہا
سامنے کے دشمنوں سے بچ کے رہنا سہل تھا
آستیں کا سانپ تھا بڑھتا رہا پلتا رہا
حادثے کی وہ کہانی مختصر سی ہے شکیلؔ
بانسری بھی بج رہی تھی شہر بھی جلتا رہا