جب تمہارا ظالموں سے کوئی بھی رشتہ نہیں

جب تمہارا ظالموں سے کوئی بھی رشتہ نہیں
کس لیے تم نے شہا پھر ظلم کو روکا نہیں


وقت کے بدلے ہوئے رخ نے پناہیں چھین لیں
ہم پس دیوار بیٹھے ہیں مگر سایہ نہیں


آسماں کچھ تو بتا یا امتحاں ہے یا سزا
سلسلہ ظلم و ستم کا کس لیے رکتا نہیں


سب نے کانٹوں ہی پہ چل کر پائی ہے منزل یہاں
کامیابی کے سفر میں تو کوئی تنہا نہیں


تاجرانہ ذہنیت لے کر ملا کرتے ہیں لوگ
اب کسی کا بھی کسی سے بے غرض رشتہ نہیں


پھر زمانے کے تھپیڑو آؤ ٹکراتے ہیں ہم
میں ابھی ٹوٹا نہیں ہوں میں ابھی بکھرا نہیں


اس سے بچھڑا تو اکیلا ہو گیا اطہر شکیلؔ
اب کسی کے ساتھ اس کا پیار کا رشتہ نہیں