نتیجہ تجسس کا بہتر بھی ہے

نتیجہ تجسس کا بہتر بھی ہے
مشقت کی تہ میں مقدر بھی ہے


ندی پار کرنا ہی کافی نہیں
ابھی راستے میں سمندر بھی ہے


اگر گھر کو چھوڑیں تو جائیں کہاں
قیامت تو کھڑکی سے باہر بھی ہے


گلابوں کا دھوکا نہ کھائے کوئی
عزیزوں کی جھولی میں پتھر بھی ہے


نہیں نیند آنکھوں میں تجھ بن مری
خنک رات ہے تن پہ چادر بھی ہے


بتاؤ زمانے میں اطہرؔ تمہیں
سکوں ایک دن کو میسر بھی ہے