سر سبز یہ جنگل چاہت کا وہ دشت وفا ہے ویراں بھی

سر سبز یہ جنگل چاہت کا وہ دشت وفا ہے ویراں بھی
ہے دل کو سکوں بھی دیکھ کے یہ اور ذہن رسا ہے حیراں بھی


یہ بھی ہے قرینہ اک شاید ہستی میں توازن رکھنے کا
کچھ راز عیاں کر لوگوں پر کچھ حال مگر رکھ پنہاں بھی


اک ضرب انا نے زیر و زبر کر ڈالا محبت کا محور
اب اس سے پناہ رب چاہیں تھے جس پہ کبھی ہم نازاں بھی


اس دور ذہانت میں جب جب دستور اماں پر بات ہوئی
آیا ہے کٹہرے میں اکثر تب ساتھ ہمارے یزداں بھی


اک لحظہ ستم اک لمحہ کرم ہم پر ہے یہ احساں ان کا سدا
راضی بھی ہوں اک ساعت میں مگر ہو جاتے ہیں پل میں نالاں بھی


ہے عقل سمجھنے سے قاصر پہلو یہ تمدن کا اب تک
ملبوس جہاں ہیں مرد بہت عورت ہے وہیں پر عریاں بھی


اپنا تو نہیں کچھ لوگوں کو یہ دیکھ کے حیرانی ہے بہت
ہیں جس سے گلے شکوے بھی ہمیں رہتے ہیں اسی پر نازاں بھی


شاعر ہیں عمل کے میداں سے کچھ دور تو اس میں حیرت کیوں
غزلوں کی زمینوں پر ان کو دیکھو گے بہت سرگرداں بھی


اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ہاں خلاق دو عالم ہے کوئی
ہر شے ہے الگ پہچان لیے اک نظم ہے سب میں یکساں بھی


اب ہم میں نہیں وہ جوش جنوں اس میں بھی نہیں وہ بات کہ جو
راحت کا سبب تھے دل کے لیے جاناں نہیں ذکر جاناں بھی


قسمت کے اندھیرے میں بھی رہی آنکھوں میں مری اک کاہکشاں
تاریک نہیں کر پائے کبھی خوابوں کو سواد‌‌ زنداں بھی


نفرت سے محبت سے اکثر ہم نے ہی لکھی تقدیر تری
ہم نے ہی زمین گل تجھ کو جنت بھی کیا اور ویراں بھی


تکرار ستم گر سے بہتر رخصت لو یہاں سے اطہرؔ جی
یہ کام تو تم کر سکتے ہو یہ کام لگے ہے آساں بھی