وائے تقدیر کیا یہ المیہ نہیں

وائے تقدیر کیا یہ المیہ نہیں
سب ہیں اپنے مگر کوئی اپنا نہیں


دیدہ و دل کہ سنسان صحرا ہوئے
دل میں جذبہ تو آنکھوں میں سپنا نہیں


عشق کو ترک کرنے میں دقت نہ تھی
عشق کو مشغلہ ہم نے سمجھا نہیں


اب کے مجھ سے ملا وہ تو ایسا لگا
وہ ہی چہرہ ہے لیکن وہ چہرہ نہیں


پھنک رہا ہے بدن کنج تنہائی میں
سر پہ چھت ہے مگر ماں کا سایہ نہیں


میری نظروں میں دنیا بھی عقبیٰ بھی ہے
آدمی ہوں میں اطہرؔ فرشتہ نہیں