اطہر شکیل کی غزل

    یہ عشق نامراد بھی کس گمرہی میں ہے

    یہ عشق نامراد بھی کس گمرہی میں ہے کھڑکی میں جو کبھی تھا وہ چہرہ گلی میں ہے ہر صبح چھیڑتی ہیں ہواؤں کی انگلیاں پوشیدہ ایک پھول جو ننھی کلی میں ہے جیسے ہر ایک انگ ہے آنکھیں لیے ہوئے کیا طرفہ احتیاط تری سادگی میں ہے ناکام زندگی ہو کہ ناکام عشق ہو جینے کی آرزو تو مری جاں سبھی میں ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کی رت ہے ترا روپ مگر سامنے ہے

    ہجر کی رت ہے ترا روپ مگر سامنے ہے ہاں وہی چہرہ وہی دیدۂ تر سامنے ہے خوب ہے شہر اماں تیرا یہاں بھی اے جاں جس سے ہم بچ کے چلے تھے وہ خطر سامنے ہے اب نہیں کوئی یہاں حوصلہ دینے والا پھر وہی دشت وہی شام سفر سامنے ہے ساتھ چلتی تھیں ابھی ایک نگر کی چیخیں اب کوئی دوسرا مجروح نگر سامنے ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ کیوں تھکنے لگے ہیں قاتلوں سے پوچھنا

    ہاتھ کیوں تھکنے لگے ہیں قاتلوں سے پوچھنا کے بھی کیوں بولتی ہیں گردنوں سے پوچھنا تم نے تو بس حال ہی پوچھا تھا مجھ بیمار کا آ گئے ہیں کیوں امنڈ کر آنسوؤں سے پوچھنا جوجھتے رہنے کا ہے سیلاب سے مفہوم کیا کشتیوں کو کھینے والے مانجھیوں سے پوچھنا بھوکے بچے کے لیے کیا شے ہے ممتا کی ...

    مزید پڑھیے

    نیت ہو اگر نیک تو دیتا ہے خدا بھی

    نیت ہو اگر نیک تو دیتا ہے خدا بھی کرتے ہیں عمل لوگ تو ملتا ہے صلہ بھی باطن کی حرارت سے پھنکے جاتے ہیں تن من پروائی بھی چلتی ہے برستی ہے گھٹا بھی چھو کر نہیں گزری ہے تری زلف معطر اس بار تو محروم چلی آئی صبا بھی اک تم ہو کہ بچھڑے تو بچھڑ ہی گئے ہم سے ملتے ہیں بہت لوگ تو ہوتے ہیں جدا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی توقع بنائے رکھنا ابھی امیدیں جگائے رہنا

    ابھی توقع بنائے رکھنا ابھی امیدیں جگائے رہنا بہت گھنا ہے اندھیرا شب کا دلوں کی شمعیں جلائے رہنا خدا ہی جانے کہ آنے والی رتوں میں کیا ہو جہاں کی حالت ابھی یہ نغمے نہ بند کرنا ابھی یہ محفل سجائے رہنا یہ دیکھنا ہے کہ دم ہے کتنا غنیم لشکر کے بازوؤں میں صفوں کو اپنی سجائے رکھنا سروں ...

    مزید پڑھیے

    اس کو تم میرے تعلق کا حوالہ دیتے

    اس کو تم میرے تعلق کا حوالہ دیتے میں بھی کل اس کا شناسا تھا یہ سمجھا دیتے یہ اماوس کا اندھیرا ہے کہ چھٹتا ہی نہیں کاش وہ آ کے کبھی گھر کو اجالا دیتے ہم نے دنیا کا بہت ساتھ دیا ہے اب تک کاش اک بار کبھی ساتھ ہم اپنا دیتے ہم تہی دست سہی پھر بھی سخی ہیں اتنے قطرہ ملتا تو عوض میں تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا

    چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا اب غم کو ہم نے تیری عنایت سمجھ لیا کھاتے رہے ہیں زیست میں کیا کیا مغالطے قامت کو اس حسیں کی قیامت سمجھ لیا کردار کیا رہا ہے کبھی یہ بھی سوچتے سجدے کیے تو ان کو عبادت سمجھ لیا ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا اب ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک شخص کو دشمن اگر بناؤ گے

    ہر ایک شخص کو دشمن اگر بناؤ گے مزاج پوچھنے والا کہاں سے لاؤ گے جو سب کو اپنے ہی معیار پر پرکھتے رہے تو زندگی میں کسے ہم سفر بناؤ گے یہاں تو ہر کوئی چہرے پہ چہرے رکھتا ہے اٹھا کے پہلو سے کس کو کسے بٹھاؤ گے تمہیں اصول تمہارے ہی مار ڈالیں گے نہ اپنے آپ کو ان سے اگر بچاؤ گے چراغ ...

    مزید پڑھیے

    جو انکار سر کے جھکانے کو ہے

    جو انکار سر کے جھکانے کو ہے گلا ہم سے سارے زمانے کو ہے میسر ہے ہر دل عزیزی اسے مروت بھی اس کی دکھانے کو ہے یہ قصہ ہے دل کا نہ ہوگا تمام ابھی اور کتنا سنانے کو ہے نیا اک المیہ نئی ابتلا خدا بھی ہمیں آزمانے کو ہے عجب ہے یہ ویران صحرا یہاں نہ تنکا کوئی آشیانے کو ہے حرم سے بھی لوٹے ...

    مزید پڑھیے

    توحید دل میں ہو تو لبوں پر رہے خدا

    توحید دل میں ہو تو لبوں پر رہے خدا ہم یوں جیے تو کیا جیے بے دین بے خدا لو یوں تو ہو گئی ہے بہت کم ضمیر کی اس آخری چراغ کو بجھنے نہ دے خدا تو راہ راست اپنے کرم سے دکھا مجھے رستے غلط ہزار ہیں دنیا میں اے خدا طالب ہیں برتری کے مگر ہیں عمل سے دور ہم کو جو کام کرنا ہے وہ کیوں کرے خدا گر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3