اطہر شکیل کے تمام مواد

22 غزل (Ghazal)

    صبح بھی ہوتی رہی مہتاب بھی ڈھلتا رہا

    صبح بھی ہوتی رہی مہتاب بھی ڈھلتا رہا زندگی کا کارواں چلتا رہا چلتا رہا سانحہ کیا اس پہ گزرا کون اٹھ کر دیکھتا اہل خانہ سو گئے لیکن دیا جلتا رہا میرے خوابوں کی کوئی بنیاد بھی تھی کیا کہوں برف کا پربت تھا اک گلتا رہا گلتا رہا آخری وقت آ گیا تو سوچتا ہوں دوستو آج کا جو مسئلہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    نتیجہ تجسس کا بہتر بھی ہے

    نتیجہ تجسس کا بہتر بھی ہے مشقت کی تہ میں مقدر بھی ہے ندی پار کرنا ہی کافی نہیں ابھی راستے میں سمندر بھی ہے اگر گھر کو چھوڑیں تو جائیں کہاں قیامت تو کھڑکی سے باہر بھی ہے گلابوں کا دھوکا نہ کھائے کوئی عزیزوں کی جھولی میں پتھر بھی ہے نہیں نیند آنکھوں میں تجھ بن مری خنک رات ہے تن ...

    مزید پڑھیے

    جیسے ہی چشم رزاق سے گر گیا

    جیسے ہی چشم رزاق سے گر گیا جگمگاتا دیا طاق سے گر گیا ایک لغزش سے دونوں ہی رسوا ہوئے وہ نظر سے میں آفاق سے گر گیا شعر کہنے کو لکھا تھا میں نے ابھی ایک مضمون اوراق سے گر گیا اس کی نظروں سے میں کیا گرا ایک بار یوں لگا جیسے آفاق سے گر گیا ایک بیٹا تکبر کے آکاش سے باپ کے لفظ اک عاق سے ...

    مزید پڑھیے

    مطمئن ہو کے مرنے کا سامان کر

    مطمئن ہو کے مرنے کا سامان کر زندگی اے خدا مجھ پہ آسان کر صرف رسمی تعارف ہی کافی نہیں میرے نزدیک آ میری پہچان کر رسم ہے سجدہ ریزی تو کچھ بھی نہیں قلب کو پہلے اپنے مسلمان کر ابر کی اوٹ میں چاند کب کا چھپا اب نہ چہرے پہ زلفیں پریشان کر موت تو آئے گی بے طلب آئے گی زندگی ہے تو جینے ...

    مزید پڑھیے

    سر سبز یہ جنگل چاہت کا وہ دشت وفا ہے ویراں بھی

    سر سبز یہ جنگل چاہت کا وہ دشت وفا ہے ویراں بھی ہے دل کو سکوں بھی دیکھ کے یہ اور ذہن رسا ہے حیراں بھی یہ بھی ہے قرینہ اک شاید ہستی میں توازن رکھنے کا کچھ راز عیاں کر لوگوں پر کچھ حال مگر رکھ پنہاں بھی اک ضرب انا نے زیر و زبر کر ڈالا محبت کا محور اب اس سے پناہ رب چاہیں تھے جس پہ کبھی ...

    مزید پڑھیے

تمام