رت مری بستی کو اس درجہ بھی بارانی نہ دے
رت مری بستی کو اس درجہ بھی بارانی نہ دے
شہر دل کے سبزہ زاروں کو یہ ویرانی نہ دے
مل نہیں پاتا کبھی پھولوں سے غنچوں سے مزاج
یوں مہک بھی اپنی ان کو رات کی رانی نہ دے
خود کلامی کرنی ہے خود سے ہی سرگوشی مجھے
اب کوئی صورت مجھے جانی یا انجانی نہ دے
سیم گوں خوابوں کو لے کر ہو نہ سر گرداں کبھی
اس خرابے پر تو اپنی جان اے جانی نہ دے
بے نیازی ہی تری حاصل محبت کا سہی
چشم حیرت کو تو پھر بھی درد کا پانی نہ دے
ٹوٹتے ہی نشۂ الفت نہ رہ جائیں کھلی
چشم امید کرم کو ایسی حیرانی نہ دے
چاند ہی کیا کہکشائیں بھی کریں آ کر طواف
اس پری پیکر کو ایسا حسن لا ثانی نہ دے
نرم و نازک پودھ کمھلا جائے گی اتنا تو سوچ
ان جڑوں کو اپنی نفرت کا تو یہ پانی نہ دے