اطہر شکیل کی غزل

    حاصل کبھی جو اس کی محبت نہ ہو ہمیں

    حاصل کبھی جو اس کی محبت نہ ہو ہمیں پل بھر کی بھی حیات میں راحت نہ ہو ہمیں شکوے جو تم سے ہیں وہ توقع کے ساتھ ہیں امید گر نہ ہو تو شکایت نہ ہو ہمیں جذباتیت میں ترک تعلق تو کر چکے کل اپنے فیصلے پہ ندامت نہ ہو ہمیں یہ اور بات ہے کہ لبوں سے نہیں عیاں یہ تو نہیں کہ تم سے محبت نہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    دشت کی آوارگی ہو چاک دامانی بھی ہو

    دشت کی آوارگی ہو چاک دامانی بھی ہو عشق ہے دل میں تو وحشت کی فراوانی بھی ہو راحت قلب و نظر تم ہو تشفی بھی تمہی اور تم میرے لیے وجہ پریشانی بھی ہو سوکھی آنکھوں سے تکا کرتے ہیں سوئے آسماں گریہ کرنے کو ہماری آنکھوں میں پانی بھی ہو کم سے کم یہ فون ہی کا سلسلہ باقی رہے ہجر مشکل ہے مگر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3