مطمئن ہو کے مرنے کا سامان کر

مطمئن ہو کے مرنے کا سامان کر
زندگی اے خدا مجھ پہ آسان کر


صرف رسمی تعارف ہی کافی نہیں
میرے نزدیک آ میری پہچان کر


رسم ہے سجدہ ریزی تو کچھ بھی نہیں
قلب کو پہلے اپنے مسلمان کر


ابر کی اوٹ میں چاند کب کا چھپا
اب نہ چہرے پہ زلفیں پریشان کر


موت تو آئے گی بے طلب آئے گی
زندگی ہے تو جینے کا ارمان کر


اس سے مل کر میں کہتا تو کیسے شکیلؔ
مجھ کو گھر اپنے اک روز مہمان کر