اسد رضوی کی غزل

    ہر سمت پکارا ہے آواز نہیں آئی

    ہر سمت پکارا ہے آواز نہیں آئی سناٹا ہے سناٹا تنہائی ہے تنہائی لی فرط مسرت سے برسات نے انگڑائی جب چاند سے چہرے پر کالی سی گھٹا چھائی کچھ ایسی اداؤں سے گلشن میں بہار آئی شبنم نے غزل چھیڑی پھولوں کو ہنسی آئی دریا کے تلاطم میں موجوں کی یہ رعنائی بیمار سی کشتی میں مانجھی کی ...

    مزید پڑھیے

    کہیں چراغوں کو نیند آئے کہیں پہ ربط حجاب ٹوٹے

    کہیں چراغوں کو نیند آئے کہیں پہ ربط حجاب ٹوٹے کسی کی آنکھوں کی جاگے قسمت کسی کا بند نقاب ٹوٹے تمہاری آنکھوں کے سامنے ہی ہماری آنکھوں کا خواب ٹوٹے فضا کی رنگین تتلیوں کی نظر سے شاخ گلاب ٹوٹے دیار شب کے تھے سب مسافر سکوت شب تو سبھی نے توڑا تو منتخب اک ہمی ہوں کاہے ہمی پہ کیوں یہ ...

    مزید پڑھیے

    فرق جب تک اندھیروں اجالوں میں تھا

    فرق جب تک اندھیروں اجالوں میں تھا تم جوابوں میں تھے میں سوالوں میں تھا اک غزل کیا کہی میں نے تیرے لیے تذکرہ اس کا کتنے رسالوں میں تھا میرے چہرے پہ رونق تھی لب پہ ہنسی ان دنوں جب زمانہ زوالوں میں تھا آرزو اس کی میرے ہی دل میں نہ تھی میں بھی بچپن سے اس کے خیالوں میں تھا مچھلیاں ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی یاد میں جیسے عذاب کی خوشبو

    کسی کی یاد میں جیسے عذاب کی خوشبو بکھر رہی ہے ورق سے کتاب کی خوشبو تھکے ہوئے سے مسافر کا خواب لگتی ہے اذیتوں کے سفر میں گلاب کی خوشبو اس ایک خط نے کئی حادثے سنا ڈالے گھروں میں پھیل گئی اضطراب کی خوشبو نہ کوئی رقص نہ محفل نہ کوئی جام و سرور بھٹک رہی ہے محل میں نواب کی خوشبو تمام ...

    مزید پڑھیے

    اب مسیحا ترے آنے کے بہانے نکلے

    اب مسیحا ترے آنے کے بہانے نکلے دل کے گوشے میں کئی زخم پرانے نکلے سوکھ جانے کے ہیں دریاؤں کے امکان بہت برف کے پھول کھلے دھوپ کے دانے نکلے دیکھنا کتنے ہی سیلاب امنڈ آئیں گے آنکھ میں اشک لیے ٹوٹے گھرانے نکلے شام ہوتے ہی جو دہلیز پہ آہٹ سی ہوئی میرے آنگن سے کئی خواب سہانے ...

    مزید پڑھیے

    زخم دل ہو گئے ناسور تمہیں کیا معلوم

    زخم دل ہو گئے ناسور تمہیں کیا معلوم تم تو ہو مجھ سے بہت دور تمہیں کیا معلوم میرے ہونٹوں کے تبسم پہ نہ جانا ہرگز حال بربادیٔ مجبور تمہیں کیا معلوم کب ستاروں کا جہاں ہو گیا تاریک نظر چاندنی کب ہوئی بے نور تمہیں کیا معلوم روز و شب کس پہ برستے ہیں ستم کے پتھر درد سے کون ہوا چور ...

    مزید پڑھیے

    چمن سے گل سے وہ رشتہ پرانا ڈھونڈتے رہنا

    چمن سے گل سے وہ رشتہ پرانا ڈھونڈتے رہنا اندھیروں میں بھی اپنا آشیانہ ڈھونڈتے رہنا کبھی آلام دوراں سے نہ تھک کر بیٹھ جانا تم محبت کا اخوت کا زمانہ ڈھونڈتے رہنا کسی اک پر نہیں رکتی نظر اپنی طبیعت ہے حسیں چہروں پہ ذوق دلبرانہ ڈھونڈتے رہنا مری نیندوں میں خوابوں میں ہے یہ خواہش ...

    مزید پڑھیے

    شفق کا نور بھی رہ رنگ آفتاب میں آ

    شفق کا نور بھی رہ رنگ آفتاب میں آ نظر بچا کے کبھی وادیٔ گلاب میں آ ورق ورق نہ پریشان رہ ہواؤں میں حروف عرض تمنا ہے تو کتاب میں آ چمکتے ذروں میں بہتا ہوا سمندر ہے ہے تجھ کو شوق تجسس تو پھر سراب میں آ خطوط ہی کے وسیلے سے میں پڑھوں تجھ کو کبھی سوال کی صورت کبھی جواب میں آ مرے گناہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ دل کشی وہ تصور کسی نظر میں نہیں

    وہ دل کشی وہ تصور کسی نظر میں نہیں تمہارے جیسی کوئی شے ہمارے گھر میں نہیں یہ زندگی بھی عجب چیز ہے خدا کی پناہ اسے سنبھال کے رکھنا مرے ہنر میں نہیں یہ کس کی آہ کی پھنکار ہے کہ اب کے برس تمہارے ہونٹوں کی کوئی دعا اثر میں نہیں میں ایک عمر سے ہوں شامل سفر لوگو مگر یہ کیا کہ مرے پاؤں ...

    مزید پڑھیے

    کانپتے ہونٹوں پہ الفاظ پرانے رکھ لے

    کانپتے ہونٹوں پہ الفاظ پرانے رکھ لے کوئی افسانہ بنا کچھ تو بہانے رکھ لے اگلے موسم کے تو کچھ اور ہی قصے ہوں گے اپنے حصے میں وہی بیتے زمانے رکھ لے خواب کے شہر میں بھٹکے گا خیالوں کا سفیر میری تصویر مرا خط بھی سرہانے رکھ لے شبنمی دھوپ کے آنچل میں ستارے ہیں بہت چاندنی آنکھوں میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3