کسی کی یاد میں جیسے عذاب کی خوشبو

کسی کی یاد میں جیسے عذاب کی خوشبو
بکھر رہی ہے ورق سے کتاب کی خوشبو


تھکے ہوئے سے مسافر کا خواب لگتی ہے
اذیتوں کے سفر میں گلاب کی خوشبو


اس ایک خط نے کئی حادثے سنا ڈالے
گھروں میں پھیل گئی اضطراب کی خوشبو


نہ کوئی رقص نہ محفل نہ کوئی جام و سرور
بھٹک رہی ہے محل میں نواب کی خوشبو


تمام بھنورے لباسوں کی طرح لپٹے ہیں
بدن سے پھولوں کے پھیلی شباب کی خوشبو


سمٹ کے پھیل گئی آنسوؤں کے ساتھ اسدؔ
ہمارے خط میں تمہارے جواب کی خوشبو