اسد رضوی کی غزل

    وہ تھک کر بیٹھ جانا چاہتا تھا

    وہ تھک کر بیٹھ جانا چاہتا تھا مسافر تھا ٹھکانہ چاہتا تھا کہ اس کی آنکھ بھیگی جا رہی تھی مگر وہ مسکرانا چاہتا تھا میں اس کی دسترس میں آ گیا جب وہ مجھ سے دور جانا چاہتا تھا کہ اکثر شب گئے آنکھوں کا موتی ڈھلک کر ٹوٹ جانا چاہتا تھا نئی جہتیں ہوئیں قائم مگر وہ وہی قصہ پرانا چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    ہنسی ان کی گل اور چمن جانتے ہیں

    ہنسی ان کی گل اور چمن جانتے ہیں یہ لب مسکرانے کا فن جانتے ہیں نئے لوگ ہو تم نئی بات جانو مرا حال اہل کہن جانتے ہیں مبارک ہو تم کو حصار خموشی زباں والے طرز سخن جانتے ہیں لہو کے جو قطرے بہائے ہیں میں نے مرے جسم کے پیرہن جانتے ہیں تم ہی صاحب سلطنت تو نہیں ہو حکومت کے ہم بھی چلن ...

    مزید پڑھیے

    کیفیت اضطراب کی سی ہے

    کیفیت اضطراب کی سی ہے تیرے خط کے جواب کی سی ہے صبح پڑھتا ہوں شام پڑھتا ہوں تو مکمل کتاب کی سی ہے سورۂ شمس ہے نظر تیری شعلگی آفتاب کی سی ہے تیری موجودگی سرور آگیں تیری فرقت عذاب کی سی ہے میری آنکھیں ہیں تتلیوں کی طرح تیری صورت گلاب کی سی ہے کیا کرو گے اسدؔ اسے لے کر جب یہ دنیا ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں بتاؤ تمہارا ہے انتظار کسے

    تمہیں بتاؤ تمہارا ہے انتظار کسے تمہاری یاد ستاتی ہے بار بار کسے یہ کس کی آنکھوں سے برسے گا ابر صبح الم شب نشاط بنائے گی غم گسار کسے لہو کا لمس تو خنجر کے لب نے چوس لیا دکھائے رنگ تبسم یہ اشک بار کسے کھلیں گی کس کی تمنائیں صحن‌ گلشن میں نصیب آئے گا وہ موسم بہار کسے یہ دوستوں کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3