زخم دل ہو گئے ناسور تمہیں کیا معلوم

زخم دل ہو گئے ناسور تمہیں کیا معلوم
تم تو ہو مجھ سے بہت دور تمہیں کیا معلوم


میرے ہونٹوں کے تبسم پہ نہ جانا ہرگز
حال بربادیٔ مجبور تمہیں کیا معلوم


کب ستاروں کا جہاں ہو گیا تاریک نظر
چاندنی کب ہوئی بے نور تمہیں کیا معلوم


روز و شب کس پہ برستے ہیں ستم کے پتھر
درد سے کون ہوا چور تمہیں کیا معلوم


کتنے آلام و مصائب سے گزرتا ہوں میں
عشق کے کیا کیا ہیں دستور تمہیں کیا معلوم


کیا بتاؤگے اسدؔ ٹوٹ کے کیا بکھرا ہے
تم تو ہو آج بھی مخمور تمہیں کیا معلوم