شفق کا نور بھی رہ رنگ آفتاب میں آ
شفق کا نور بھی رہ رنگ آفتاب میں آ
نظر بچا کے کبھی وادیٔ گلاب میں آ
ورق ورق نہ پریشان رہ ہواؤں میں
حروف عرض تمنا ہے تو کتاب میں آ
چمکتے ذروں میں بہتا ہوا سمندر ہے
ہے تجھ کو شوق تجسس تو پھر سراب میں آ
خطوط ہی کے وسیلے سے میں پڑھوں تجھ کو
کبھی سوال کی صورت کبھی جواب میں آ
مرے گناہ میں شامل رہا ہے تو بھی اسدؔ
نبھانے عہد وفا اب مرے عذاب میں آ