کہیں چراغوں کو نیند آئے کہیں پہ ربط حجاب ٹوٹے

کہیں چراغوں کو نیند آئے کہیں پہ ربط حجاب ٹوٹے
کسی کی آنکھوں کی جاگے قسمت کسی کا بند نقاب ٹوٹے


تمہاری آنکھوں کے سامنے ہی ہماری آنکھوں کا خواب ٹوٹے
فضا کی رنگین تتلیوں کی نظر سے شاخ گلاب ٹوٹے


دیار شب کے تھے سب مسافر سکوت شب تو سبھی نے توڑا
تو منتخب اک ہمی ہوں کاہے ہمی پہ کیوں یہ عذاب ٹوٹے


نہ کر جبین خیام زخمی نہ سہہ عذابوں کی دھوپ سر پہ
نہ کر ہواؤں کی پرورش یوں کہ زور آور طناب ٹوٹے


وہ جس کی مٹی میں پل رہے تھے شگوفے امن و اماں کے لوگو
اسی پہ برسا لہو کا بادل اسی پہ سارے عذاب ٹوٹے


اسدؔ گھٹائیں یہ تیرگی کی تبھی چھٹیں گی کہ جب فلک پر
کسی کے ماتھے کا چاند چمکے کسی نظر کا شہاب ٹوٹے