اسد رضوی کی غزل

    تو بھی حیران و پریشاں ہے تھکا ہوں میں بھی

    تو بھی حیران و پریشاں ہے تھکا ہوں میں بھی تیرے ہم راہ بہت دور چلا ہوں میں بھی تو بھی اس بت کی زیارت کا شرف حاصل کر اس کے قدموں پہ کئی بار جھکا ہوں میں بھی تو بھی مصروف کھلونوں میں ہے یادوں سے پرے جی کے بہلانے کو کچھ ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی تیرا ہی چرچا نہیں شہر میں بازاروں میں کتنے ...

    مزید پڑھیے

    سمندر بھی اگرچہ کم بہت ہے

    سمندر بھی اگرچہ کم بہت ہے مری تشنہ لبی میں دم بہت ہے بہت دن بعد خط آیا ہے ان کا مزاج دلبراں برہم بہت ہے غلط اخبار نے لکھا تھا نفرت یہاں تو پیار کا موسم بہت ہے اگر رونا ہے تو رونے کی خاطر حسین ابن علی کا غم بہت ہے تمہارے قہقہوں میں جان کتنی ہمارے آنسوؤں میں دم بہت ہے

    مزید پڑھیے

    کسی کو راج دلارے فریب دیتے رہے

    کسی کو راج دلارے فریب دیتے رہے کسی کو جان سے پیارے فریب دیتے رہے یقین ملتا رہا تھرتھراتے ہونٹوں سے مگر نظر کے اشارے فریب دیتے رہے تمام رات میں چلتا رہا ہوں کانٹوں پر تمام رات ستارے فریب دیتے رہے کنول کھلا تھا محبت کا جس کے پانی پر وہ جھیل اس کے کنارے فریب دیتے رہے سراب بنتا ...

    مزید پڑھیے

    حروف عرض طلب کی صورت گزرتے لمحوں کا خواب لکھنا

    حروف عرض طلب کی صورت گزرتے لمحوں کا خواب لکھنا ہماری آنکھوں کے سامنے ہی ہمارے دل کی کتاب لکھنا کسی کی نظروں کی نرم بارش سے جب بھی بھیگے بدن کی مٹی سلگتی سانسوں کے پیرہن پر حدیث حسن و شباب لکھنا ہمارے ہونٹوں کی تشنہ کامی تمہاری آنکھوں سے جب بھی لپکے کہیں یہ تتلی کہیں پہ غنچہ ...

    مزید پڑھیے

    تلاش راہ میں راہی کہاں کہاں نہ گیا

    تلاش راہ میں راہی کہاں کہاں نہ گیا طلب جہاں کی اسے تھی کبھی وہاں نہ گیا یہاں سے آگے کہیں پھر یہ کارواں نہ گیا کہ میرے گھر سے تو باہر کبھی دھواں نہ گیا الجھتی رہ گئیں موجوں سے کشتیاں اپنی ہوا تھی تیز مگر زور بادباں نہ گیا اسے اندھیروں کی پہچان کیا ہوئی لوگو چراغ جس کا ہواؤں کے ...

    مزید پڑھیے

    فکر کو خواب خیالات کو فانی لکھنا

    فکر کو خواب خیالات کو فانی لکھنا زندگی آنکھ چرائے تو کہانی لکھنا شاخ پہ پھول کھلے ہوں بھی تو کچھ فرق نہیں تم بہاروں کو بھی اب دور خزانی لکھنا یوں بھی ہو جائے گی تصنیف مکمل یارو کچھ روایات سے کچھ اپنی زبانی لکھنا چاند لکھنا تو نگاہوں میں ہو چہرہ اس کا چاندنی برسے تو موجوں کی ...

    مزید پڑھیے

    نہ میں ہی تنہا تھا نہ میری رہ گزر تنہا

    نہ میں ہی تنہا تھا نہ میری رہ گزر تنہا شریک راہ رہے تم مگر سفر تنہا حصار رنگ سے باہر سبھی نکل آئے الجھ کے رہ گئی اک میری ہی نظر تنہا بہت قریب ہے کہ تم سے گفتگو بھی ہو دیار فکر میں آتے رہے اگر تنہا حروف ہی کی طرح ٹوٹتے بکھرتے رہے کتاب پڑھتے رہے ہم جو رات بھر تنہا عجیب طرز رہائش ...

    مزید پڑھیے

    سلگتی آگ تھی نہ جلتے آشیانے تھے

    سلگتی آگ تھی نہ جلتے آشیانے تھے بہت حسین وہ گزرے ہوئے زمانے تھے ہماری آنکھوں کو اس کا خیال ہی کب تھا کہ ان لبوں کو بھی کچھ روز مسکرانے تھے شریک بزم اسی واسطے ہوا نہ کوئی شب نشاط کئی غم گلے لگانے تھے یہ اور بات کہ چہرے پہ اجنبیت تھی تعلقات تو ان سے بہت پرانے تھے عجیب شرط تھی اس ...

    مزید پڑھیے

    سکون لٹتا رہے گا فضا ہی ایسی ہے

    سکون لٹتا رہے گا فضا ہی ایسی ہے ہمارے شہر کی آب و ہوا ہی ایسی ہے کبھی نہ آئے گی ہونٹوں پر اب ہنسی کی طرح وہ ایک بات کہ جس کی ادا ہی ایسی ہے دہکتی دھوپ میں ساون کی طرح رہتا ہوں مرے بزرگ کے لب کی دعا ہی ایسی ہے کسی کے حسن سماعت پہ ٹھیس کیوں نہ لگے کسی کے ہونٹوں پہ اب کے صدا ہی ایسی ...

    مزید پڑھیے

    وہ ایک شخص جو منزل بھی رہ گزار بھی ہے

    وہ ایک شخص جو منزل بھی رہ گزار بھی ہے نشاط و کیف میں ڈوبا ہے غم گسار بھی ہے مجاز اور حقیقت کا آئنہ بن کر ہماری ذات یہاں لیل بھی نہار بھی ہے تمہارے کمرے میں گلشن کا رنگ روپ ملا یہاں تو میز پہ پھولوں کے ساتھ خار بھی ہے تمہاری ذات سے اس دل کا رابطہ بھی نہیں تمہاری یاد میں دل میرا بے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3