انور شمیم کی غزل

    ماہ تاباں تری تصویر بناتے ہوئے تھے

    ماہ تاباں تری تصویر بناتے ہوئے تھے دل سے پیوست کوئی تیر بناتے ہوئے تھے لوگ جس دشت میں شمشیر بناتے ہوئے تھے ہم وہاں لحن مزامیر بناتے ہوئے تھے اور کیا خاک پہ انگشت سے خط کھینچتے تھے کشت دلگیر کو کشمیر بناتے ہوئے تھے کھارے پانی سے کیا کرتے تھے بلور کشید دانۂ شور سے اکسیر بناتے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی چھو جاتا ہے کون ہے یہ

    کوئی چھو جاتا ہے کون ہے یہ خوشبو کہ ہوا ہے کون ہے یہ یہ تو جو نہیں تجھ سا سندر سر شاخ کھلا ہے کون ہے یہ میں اتنا جگ مگ کیسے ہوں یہ کس کی ادا ہے کون ہے یہ یہ جو سانس کی لے پہ ہے رقص کناں تو ہے کہ ہوا ہے کون ہے یہ منظر منظر چہکار کے جو مجھے کھینچ رہا ہے کون ہے یہ یہ ہار سنگھار سی ساج ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کبھی یوں بھی اٹھلاتی آتی تھی

    ہوا کبھی یوں بھی اٹھلاتی آتی تھی پائل سے سنتور بجاتی آتی تھی ایسا خشک کنارا یہ ساحل کب تھا ندی یہاں تک بھی لہراتی آتی تھی ایک ستارا جگ مگ کرتا تھا چھت پر کرن زمیں تک بدن چراتی آتی تھی وحشی اپنی دھول اڑاتا جاتا تھا خلق خدا نیزے لہراتی آتی تھی کھلے ہوئے گلزار سی کوئی خوش ...

    مزید پڑھیے

    فرق کیا ہے یہ من و تو کے بیچ

    فرق کیا ہے یہ من و تو کے بیچ ایک سے دوسری خوشبو کے بیچ ہم چلے بھی کہ وہیں پر ہیں کھڑے محمل و ناقہ کے جادو کے بیچ فاصلہ کتنا بڑھا مڑ کے تو دیکھ منصفی اور ترازو کے بیچ اک بڑا فرق ہے معصومی کا دشت اور شہر کے آہو کے بیچ لوگ جینے پہ نہ مامور تھے کب خنجر و مہر ہلاکو کے بیچ لوگ کس عشق ...

    مزید پڑھیے

    زمانہ اپنی ہی صورت پہ مرنے لگ جائے

    زمانہ اپنی ہی صورت پہ مرنے لگ جائے تو کیا اب آئینہ خود سے مکرنے لگ جائے کسی صدا میں وہ آہنگ انقلاب تو ہو کہ خار زاروں کی دنیا سنورنے لگ جائے ہمیں یہ دھیان تو رکھنا تھا باد و باراں سے قبل کہ سیل آب نہ سر سے گزرنے لگ جائے ستارہ اب کوئی دیوار شب میں در تو کرے اجالا دشت سیہ میں اترنے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی بچھائی غزل تو کبھی لحاف کیا

    کبھی بچھائی غزل تو کبھی لحاف کیا فقیر نے اسی خوشیوں کو بس غلاف کیا مصافحے بھی ہوئے اور معانقے بھی رہے پس خلوص تھا کیا کس نے انکشاف کیا پسند آیا تو خوش ہو کے ہاتھ کاٹ لئے ہنر کا یوں بھی زمانے نے اعتراف کیا نظر بچا کے گزرنا ترا کمال نہیں یہ کار نیک تو سب نے مرے خلاف کیا دکھائی ...

    مزید پڑھیے

    خبر نہیں وہ ضیا بار کرنے آیا تھا

    خبر نہیں وہ ضیا بار کرنے آیا تھا کہ اور راستے دشوار کرنے آیا تھا وہ سب کو حق کا طرف دار کرنے آیا تھا کہ اپنا حاشیہ بردار کرنے آیا تھا مجھے چڑھا دیا ان سب نے مل کے سولی پر میں جن کو نیند سے بیدار کرنے آیا تھا سلگ رہی ہے جو بستی کوئی سبب ہوگا فضا کو کوئی تو بیمار کرنے آیا ...

    مزید پڑھیے

    کیا ضروری ہے کہ بس شور و شغب میں رہا جائے

    کیا ضروری ہے کہ بس شور و شغب میں رہا جائے بھیڑ کے ساتھ چلیں اور عقب میں رہا جائے مجھ میں دریا مرا کیوں جوش پہ اب آتا نہیں کب تلک صبر سے گرداب ادب میں رہا جائے کوئی تدبیر کہ یہ دشت بھی ہو باغ جناں کچھ تو اس خاک کے بھی خیر طلب میں رہا جائے کوئی غوغا ہی اٹھا چاہیے ویرانۂ شب حبس یہ ...

    مزید پڑھیے

    ہجوم غم زدگاں صبر سے مکر نہیں جائے

    ہجوم غم زدگاں صبر سے مکر نہیں جائے اور اتہام اسی بے بسی کے سر نہیں جائے نکلنے ہی کو ہے مہتاب بادلوں سے ابھی یہ انتظار اسی آسرے پہ مر نہیں جائے بہت ضروری دیوں کا ہواؤں سے ہے بچاؤ کہ ساز باز ہوس کچھ کمال کر نہیں جائے میں پھول بانٹنے نکلوں تو ڈر بھی ساتھ پھرے لہو سے کاسۂ گل بے ...

    مزید پڑھیے