کیا ضروری ہے کہ بس شور و شغب میں رہا جائے

کیا ضروری ہے کہ بس شور و شغب میں رہا جائے
بھیڑ کے ساتھ چلیں اور عقب میں رہا جائے


مجھ میں دریا مرا کیوں جوش پہ اب آتا نہیں
کب تلک صبر سے گرداب ادب میں رہا جائے


کوئی تدبیر کہ یہ دشت بھی ہو باغ جناں
کچھ تو اس خاک کے بھی خیر طلب میں رہا جائے


کوئی غوغا ہی اٹھا چاہیے ویرانۂ شب
حبس یہ ٹوٹے کچھ اس فکر نقب میں رہا جائے


اک ذرا اپنے کنویں سے کبھی باہر کو جئیں
اک ذرا اوروں کے بھی درد و تعب میں رہا جائے


سوچتا ہوں نیا آباد کروں قریۂ عشق
اور پھر شان سے اس شہر عجب میں رہا جائے


قرض مٹی کا کبھی یوں ادا کر جائیں شمیمؔ
گیت بن کر کے ہر اک غنچۂ لب میں رہا جائے