ہجوم غم زدگاں صبر سے مکر نہیں جائے

ہجوم غم زدگاں صبر سے مکر نہیں جائے
اور اتہام اسی بے بسی کے سر نہیں جائے


نکلنے ہی کو ہے مہتاب بادلوں سے ابھی
یہ انتظار اسی آسرے پہ مر نہیں جائے


بہت ضروری دیوں کا ہواؤں سے ہے بچاؤ
کہ ساز باز ہوس کچھ کمال کر نہیں جائے


میں پھول بانٹنے نکلوں تو ڈر بھی ساتھ پھرے
لہو سے کاسۂ گل بے قیاس بھر نہیں جائے


یہ کیا ہے ایسا کہ سہرن سی سارے جسم میں ہے
کنویں میں آگ کے دنیا کہیں اتر نہیں جائے


ملی بھی ساعت قربت تو شاخ چھو نہ سکے
فشار خون بدن میں کہیں بپھر نہیں جائے


سمیٹتے تو ہیں ہم لخت جاں پہ سوچتے ہیں
ہوائے تند میں پھر سے مکاں بکھر نہیں جائے