ماہ تاباں تری تصویر بناتے ہوئے تھے
ماہ تاباں تری تصویر بناتے ہوئے تھے
دل سے پیوست کوئی تیر بناتے ہوئے تھے
لوگ جس دشت میں شمشیر بناتے ہوئے تھے
ہم وہاں لحن مزامیر بناتے ہوئے تھے
اور کیا خاک پہ انگشت سے خط کھینچتے تھے
کشت دلگیر کو کشمیر بناتے ہوئے تھے
کھارے پانی سے کیا کرتے تھے بلور کشید
دانۂ شور سے اکسیر بناتے ہوئے تھے
زخم ہم نے کبھی آلودۂ رہم نہ کیا
ہجر کو وصل کی تعبیر بناتے ہوئے تھے
چاند بادل سے نکلتا کبھی چھپتا تھا ادھر
ہم ادھر خواب کی تصویر بناتے ہوئے تھے
جسم کے لوتھڑے ملبوں میں ادھر ڈھونڈتے تھے
اور ادھر اک نئی تعمیر بناتے ہوئے تھے
یوں کوئی دشت سخن کا کہیں ہوتا ہے اسدؔ
ہاں مگر عشق کو جو میرؔ بناتے ہوئے تھے