زمانہ اپنی ہی صورت پہ مرنے لگ جائے

زمانہ اپنی ہی صورت پہ مرنے لگ جائے
تو کیا اب آئینہ خود سے مکرنے لگ جائے


کسی صدا میں وہ آہنگ انقلاب تو ہو
کہ خار زاروں کی دنیا سنورنے لگ جائے


ہمیں یہ دھیان تو رکھنا تھا باد و باراں سے قبل
کہ سیل آب نہ سر سے گزرنے لگ جائے


ستارہ اب کوئی دیوار شب میں در تو کرے
اجالا دشت سیہ میں اترنے لگ جائے


کرو گے کیا جو نہ کشتیٔ جاں ڈبوئی گئی
تم اہتمام کرو یہ ابھرنے لگ جائے


چلو نہ ہم کوئی صورت مفید سی سوچیں
فضائی باغ ذرا اور نکھرنے لگ جائے