کبھی بچھائی غزل تو کبھی لحاف کیا

کبھی بچھائی غزل تو کبھی لحاف کیا
فقیر نے اسی خوشیوں کو بس غلاف کیا


مصافحے بھی ہوئے اور معانقے بھی رہے
پس خلوص تھا کیا کس نے انکشاف کیا


پسند آیا تو خوش ہو کے ہاتھ کاٹ لئے
ہنر کا یوں بھی زمانے نے اعتراف کیا


نظر بچا کے گزرنا ترا کمال نہیں
یہ کار نیک تو سب نے مرے خلاف کیا


دکھائی دیتا مرا سر بھی جاں نثاروں میں
کبھی کسی نے نہیں آئینے کو صاف کیا