ہوا کبھی یوں بھی اٹھلاتی آتی تھی
ہوا کبھی یوں بھی اٹھلاتی آتی تھی
پائل سے سنتور بجاتی آتی تھی
ایسا خشک کنارا یہ ساحل کب تھا
ندی یہاں تک بھی لہراتی آتی تھی
ایک ستارا جگ مگ کرتا تھا چھت پر
کرن زمیں تک بدن چراتی آتی تھی
وحشی اپنی دھول اڑاتا جاتا تھا
خلق خدا نیزے لہراتی آتی تھی
کھلے ہوئے گلزار سی کوئی خوش بدنی
شہر سکوت میں لہر اٹھاتی آتی تھی
شہزادی پھر شہر سبا کو لوٹ گئی
دشت میں جو سو شمعیں جلاتی آتی تھی
یہی ندائے کوہ جو آتی ہے کل بھی
بخت بریدوں کو بہلاتی آتی تھی