انور شمیم کی نظم

    زمین زادیاں

    پھوار سی برس رہی گھٹا کی نرمیوں تلے فسوں طرازیٔ فضا کے سر میں سر ملا کے گا رہی زمین زادیاں نمو کی آنچ میں نہائی نرم گیلی مٹیوں میں دھان کے چراغ روپتی ہوئی سنا رہی ہیں فصل نو بہار کی بشارتیں درخت وجد میں ہیں یوں کہ جیسے جھومتے ہوئے شراب ارغواں کے صید مست زمین زادیاں ثنا و حمد کی ...

    مزید پڑھیے

    کہ اب جو مرحلہ ہوگا

    یہی لگتا ہے غیر اعلانیہ کچھ ناروا اعلان شاید ہو چکا ہے یہ اک لمحہ بہت سنجیدگی سے سوچنے کا ہے کہ اس کے بعد اب جو مرحلہ ہوگا کسی سم سم کے کھلنے کا نہ شاہوں کے دفینے ہاتھ آنے کا نہ جشن و رقص کا ہوگا بھیانک روح فرسا مرحلہ وہ یقیناً اشک و خاک و خوں نہائے شہر سے ملبہ ہٹانے اور تعفن سے ...

    مزید پڑھیے

    سکوت گلنار ہو رہی ہے

    افق کی سیڑھی اتر کے سورج سکوت دریا کو چومتا ہے سکوت گلنار ہو رہی ہے کنار دریا کھڑے ہوئے سب درخت حیرت سے دیکھتے ہیں سکوت میں رنگ رنگ میں چھب وہیں پہ کوئی کنار دریا بچھی ہوئی ریت کی دری کو الٹ کے جاناں کسی تقدس مآب ساعت لکھی ہوئی اک حسین سی نظم ڈھونڈھتا ہے

    مزید پڑھیے

    اسی ہوائے بہار میں تم سے پھر ملوں گا

    یہ وہم ہے تو برا نہیں ہے جو خواب سمجھو تو خواب سمجھو مگر ملوں گا یقیں کے سورج کی راس تھامے گھڑی کی سوئی گھما سکو تو صدی کی فصل بہار موسم کے در پہ روکو جہاں ہوا نے بدن چھوا تھا تو دست جاناں کی گوندھی مٹی مہک اٹھی تھی جہاں لبوں نے دعا پڑھی تو زمیں کے سینے پہ پھول مہکے پرند چہکے کئی ...

    مزید پڑھیے

    میں نے اک چیز بچا رکھی ہے

    یہ خرابہ کہ کوئی گنبد تاریک ہے یہ کوئی سوراخ نہیں کوہ سیہ کے اس پار آنکھ دیکھے کوئی تارا جگنو اس خرابے کی سحر بھی کیا ہے بیوگی صبح کی چوکھٹ تھامے اپنی پیشانی کی کھوئی ہوئی بندی میں گم سرخ اگتے ہوئے سورج کو کھڑی گھورتی ہے دن کا یہ حال کہ بس دھول اڑتی ہے بدن میں دن بھر جیٹھ دوپہر کی ...

    مزید پڑھیے

    ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

    اٹھو سیلے کمرے سے باہر کو نکلو وہاں ہے زمانہ تغیر پذیر کہ ہم چاہ تاریک میں اپنی آنکھیں نہ کھو دیں اٹھیں جب تو سب چیزیں بدلی ملیں اور سارے تماشے ہمیں اجنبی آنکھ سے گھورتے ہم سے پوچھیں کہ تم کون ہو کس عجائب کدے سے نکل آئے ہو اور جب اپنی جیبیں ٹٹولیں تو سکے ہمارے زر و سیم کے قیمتیں ...

    مزید پڑھیے

    اور دو آنکھیں

    ندی رواں ہے اوپر پل سے ریل گزرتی ہے پل سے نیچے صبح کا سورج جل دھارے پر جھلمل دھوپ سے سات سروں میں نظمیں لکھتا ہے چاندی چاندی ریتیلے ساحل پر تم قدموں سے پھول کھلاتی ہو اور دو آنکھیں اس بحرانی اندھے بہرے گونگے یگ میں سرخ زمیں کی نم مٹی سے دشت کی کھوئی خوشبو چنتی ہیں

    مزید پڑھیے

    اکتارے والا بنجارا

    رخصت اے ہواۓ یخ بستہ پھاگن کی ہوا گاتی آئی پر کھول کے جاگی انگڑائی باغوں میں آم کی شاخوں پر پھر من للچاتے بور لگے بچپن کو شرارت پھر سوجھی سردی سے ٹھٹھری گٹھڑی سی کمبخت خطائیں پھر سنکیں کوئل منقار میں کوک لیے خوشبو کی جسامت ڈھونڈ رہی پاگل پن کی تصویر ہوئی پھر من جنگل میں مور نے ...

    مزید پڑھیے